اقوام متحدہ کے ایک ماہر امور میانمار کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس کی بغاوت کے بعد سے فوجی جنتا شہریوں کے خلاف استعمال کے لیے جنگی طیاروں اور بکتر بند گاڑیوں کے حصول کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
میانمار کے حوالے سے اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر، سابق امریکی رکن کانگریس تھامس اینڈریوز نے منگل کے روز بتایا کہ دو ممالک فوجی جنتا کو اب بھی جنگی طیارے اور بکتر بند گاڑیاں فراہم کر رہے ہیں۔
اینڈریوز نے ایک بیان میں کہا، ”گزشتہ برس کی فوجی بغاوت کے بعد سے شہریوں کے خلاف ہونے والے بلا روک ٹوک جرائم اور زیادتیوں کے متعلق شواہد کی موجودگی کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن روس اور چین نے میانمار کی فوجی جنتا کو متعدد فوجی طیارے اور بکتر بندگاڑیاں فراہم کی ہیں۔“
اینڈریوز نے میانمار کی فوجی جنتا کو ہتھیار فراہم کرنے والے ملکوں میں سربیا کا بھی نام لیا۔
انہوں نے کہا، ”اسی مدت کے دوران سربیا نے میانمار کی فوج کو راکٹ اور بکتر بند گاڑیاں ایکسپورٹ کرنے کی منظوری دی۔“
اینڈریوز نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے میانمار کو ہتھیاروں کی سپلائی پر پابندی لگانے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا، ”اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ میانمار کو منتقل کیے جانے والے ہتھیاروں کا استعمال شہریوں کو قتل کرنے کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔“
انہوں نے سلامتی کونسل سے یہ اپیل بھی کی کہ تیل، گیس اور زرمبادلہ کے ذخائر تک فوج کی رسائی کو منقطع کر دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے ریاستوں اور پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں سے بھی اپیل کی کہ وہ میانمار سے بانس اور قیمتی پتھر نہ خریدیں کیونکہ ان سے حاصل ہونے والی رقوم فوجی جنتا کے پاس چلی جاتی ہیں۔
گزشتہ برس یکم فروری کو فوجی بغاوت کے بعد سے ہی میانمار میں افراتفری کا ماحول ہے۔ فوجی بغاوت کے ساتھ ہی وہاں تقریباً ایک دہائی پرانی جمہوریت کا خاتمہ ہو گیا تھا اور ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ فوج ان احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران فوجی جنتا کی کارروائیوں میں کم از کم 1500افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جب کہ فوج اور مسلح باغیوں کے درمیان جاری تصادم کی وجہ سے تین لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
فوجی جنتا کا کہنا ہے کہ وہ ”دہشت گردوں“ سے جنگ لڑ رہی ہے اور اقوام متحدہ کی نکتہ چینی کو داخلی معاملات میں مداخلت قر ار دیتی ہے۔