پنجگور اور نوشکی حملوں کے اصل محرکات | ڈاکٹر جلال بلوچ

0
930

تحاریک کے اثرات سماج پہ ان کے طریقہ ہائے کار کی مناسبت سے پڑتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف بلوچوں کی تحریک پاکستان کا بلوچستان پہ بزورشمشیر قبضے کے ساتھ ہی شروع ہوا۔ گو کہ پہلا مرحلہ مختصر مدت کے بعد قابض کے حیلوں بہانوں کی وجہ سے اختتام پذیر ہوا لیکن اس کے اثرات نے آنے والے دنوں میں اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔ حالیہ تحریک جس کی ابتداء غالباً 1998ء میں کوئٹہ میں قائم فوجی چھاؤنی پہ راکٹ فائر کرنے سے شروع ہوا اس نے نہ صرف مختصرمدت میں پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بلکہ اس میں آئے روز نت نئی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہے۔انسان جب کوئی بھی عمل شروع کرتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ اس کے بھید سے آشنا ہوتا ہے، اسی طرح بائیس ت(22)ئیس(23) سالہ جہد مسلسل نے بلوچ جہد کاروں کو جنگ کا اکلیس بنادیا ہے۔ بلوچوں کا جنگی رموز پہ یہ دسترس دشمن کے لیے وبال جان بن چکا ہے۔

دو فروری 2022ء کو بیک وقت نوشکی اور پنجگور میں بلوچ فدائین نے نہ صرف حملہ کیا بلکہ دشمن کے قلعوں کو لمحوں میں تسخیر بھی کیا۔ بلوچوں کے ہاتھوں دشمن کے فوجی ہیڈکوارٹرز کی تسخیرات نے یہ ثابت کیا کہ بلوچ اس جنگ کو اپنے انجام تک لے جانے کی استطاعت رکھتی ہے۔

جنگوں میں آزادی پسندوں کی بڑی کامیابیوں کو کاؤنٹر کرنے کے لیے آباد کار مختلف ہتکھنڈے استعمال کرتی ہے جن کا مقصد مقامی آبادی کو اس جنگ سے بدظن کرنا ہوتا ہے۔ اس فدائی حملے کو بھی بعض طبقوں نے خودکشی کے زمرے میں لیااور اسے اسلام کے منافی عمل قرار دیا گوکہ بلوچوں کی جنگ مذہبی نہیں لیکن سماج میں ہم مذہبی اثرات سے انکار نہیں کرسکتے جو آبادکاروں کی ہی دین ہے۔ یہاں مذہب کا ذکر کرنے کی نوبت اس لیے پیش آرہی ہے تاکہ سماج کے باسی بھی اس سے بارآور ہوسکے کہ مذہب اس طریقہ جنگ کی مخالفت ہر گزنہیں کرتی جس کی واضح مثال ہمیں 6ہجری میں صلح حدیبیہ کے دوران ملتی ہے۔ اُس وقت جب حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی افواہ پھیل گئی تومسلمانوں کی ایک جماعت نے”موت پر بیعت“ کی یعنی مرجائیں گے مگر میدان جنگ چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔سب سے پہلے جس صحابی کو بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا ان کا نام ابوسنان اسدی ؓتھا۔اس کے علاوہ ایک صحابی سیدنا سلمہ اکوعؓ کو بھی موت پہ بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نہ صرف بہادری میں اپنی مثال آپ تھا بلکہ جسمانی چستی و پھرتی میں چیتے کی مانند تھا۔ ان کے علاوہ بھی غزوات میں موت پہ بیعت کرنے واقعات ہم تاریخ اسلام میں دیکھ سکتے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت فقط ایک افواہ تھی اس کے باوجود اس کے دوستوں نے شہادت کا بدلہ لینے کے لیے فدائین بننے کو تیار ہوگئے یہاں تو وطن، جو روح کی مانند ہوتی ہے اس پہ طاغوتی قوتیں قابض ہیں، قومی شناخت خطرے میں تو ایسے میں موت پہ بیعت یعنی فدائین بننا کیسے اور کیوں کر مذہب کے منافی ہوسکتا ہے۔

جنگ کے اس طریقہ کار کے متعلق یہ چودہ سو سال قبل کی مثال تھی، اب ہم آتے ہیں بارود کے زمانے میں جنگوں کے بارے میں۔ اس حوالے سے جو پہلی مثال ہمیں ملتی ہے وہ ہے جنوبی ہندوستان کی ریاست ”شیوگنگئی“ جس پہ برطانوی افواج نے 1772ء میں قبضہ کیا اور اس کا حاکم”متھوادوگنتاپور“ اس جنگ میں مارا گیا جس کے بعد اس کی بیوی رانی ویلونچیار نے بھاگ ڈور سنبھالی۔1780ء تک خود کومنظم کرنے کے بعد جنگ کے لیے دوبارہ تیار ہوچکی تھیں۔رانی کو اس بات کا ادراک تھی کہ انگریز اپنے جدید ہتھیاروں کی وجہ سے ہی ہندوستانیوں کو شکست دینے میں کامیاب ہورہے ہیں لہذا رانی نے یہ فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے انگیرزوں کے ہتھیاروں کو ملیامیٹ کیا جائے۔اس جنگ کے لیے انگریزوں نے اپنے ہتھیار ایک ایسے مندر میں چھپائے تھے جہاں صرف خواتین کو جانے کی اجازت تھیں۔ وہ چونکہ خواتین کی جانب سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کررہے تھے اسی لیے انہوں نے یہ اقدام اٹھایا۔رانی کو جوں ہی ہتھیاروں کا سراغ ملا تو انہوں نے ان کا قلع قمع کرنے کی ذمہ داری اپنی اعلیٰ کمانڈر، ”کُھلی“ کو دی اور یوں یہ عظیم خاتون(کمانڈر کُھلی) اپنی جانباز ساتھیوں کی مدت سے مندر میں داخل ہوکر اسے آگ لگا دی اور اپنی ساتھیوں سمیت وطن پہ فدا ہوگئیں۔ اس کے بعد ہم 1881ء میں ”پیپلزول“ نامی تنظیم کے رکن ”گرینیوٹسکی“ زارِ رو س“الیگزینڈر“ پہ چھوٹے پیمانے کے بم سے حملہ کرتا ہے اور یوں دونوں اس حملے میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یہ مارکسی کارنامہ اس جانب واضح اشارہ ہے کہ جنگ کے اس طریقہ کار سے مذہب کا کو ئی لین دین نہیں، جنگ بس جنگ ہے جس کی کامیابی کے لیے ہر اس طریقہ ہائے کار کا استعمال کیا جاتا ہے جو مقصد کو کامیابی کی جانب لے جانے کے لیے ضروری ہو۔

دورِ جدید میں جنگ کے اس طریقہ کار کو ہم فلسطین، سری لنکا اور مذہبی تنظیموں میں کثرت سے دیکھ سکتے ہیں۔ آتے ہیں بلوچ تحریک آزادی میں اس طریقہ جنگ کی جانب۔ بلوچوں نے اولین فدائی حملہ ستر کی دہائی میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو پہ کیا جہاں کوئٹہ کلی اسماعیل سے ترتعلق رکھنے والا بلوچ فرزند شہید مجید بلوچ نے یہ حملہ کیا، گوکہ وہ اپنے ہدف پہ پہنچنے پہ ناکام رہا لیکن جنگ کو ایک نیا رخ دینے میں اُس کے اس اقدام کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

حالیہ دور میں بلوچ تحریک میں جنگ کا یہ طریقہ کیوں کر اپنایا جارہا ہے؟ اس کا آسان سا جواب یہی ہوگا کہ جب تحریک سے وابستہ اراکین اپنی تاریخ سے مکمل جانکاری حاصل کرتے ہیں تو وہ غلامی سے نجات میں ایک اجتماع کے لیے روشن مستقبل دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یعنی جب آزادی پسند بندوق کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر پوری مسلح ہوتے ہیں تو وہ جنگ میں کودنے سے قبل ہی خود کو فدائین تصور کرتے ہیں ان کا یہی نظریہ کہ اس راہ میں ہم موت سے آئے روز بغلگیر ہوں گے لیکن ہمیں اس کی پرواہ نہیں، کیوں کہ ہم ایک ایسے راستے پہ گامزن ہیں جس میں جیت یقیناً ہماری ہوگی چاہے حال کے جانثار رہیں یا نہ رہیں۔“ یعنی مایوسیوں کا بادل چھٹ چکا ہے اور فتح قریب ہے جس کے بعد قومی تعمیر و ترقی کی راہیں کھل جائیں گی اور یوں مستقبل کے سپوت ستارون کو تسخیر کرتے رہیں گے۔

بلوچستان کی روشن تاریخ جہاں بلوچ قوم نے 538سال تک حکمرانی کی اسے ایک ایسے دشمن نے ہتھیا لیا جس کی سرے سے کوئی تاریخ ہی نہیں۔ لہذا ایسے حالات میں وہ دشمن جو جبراً حاکم بن جاتا ہے یا بنایا جاتا ہے تو وہ مقامی آبادی کو گمنام راستوں پہ دھکیلنے کی ہمہ تن کوشش کرتی ہے۔ آباد کار کی انہی کوششوں کی وجہ سے جنگ کے نئے طور طریقے دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بلوچ قومی تحریک میں جنگ کا یہ زاویہ بھی اسی کی کڑی ہے۔

حالیہ بلوچ حملوں میں بلوچ فدائیں اور مجید بریگیڈ کے کمانڈر کے مابین دورانِ جنگ کی گفت و شنید نے معلومات کے تبادلے میں کلیدی کردار ادا کیا جن کی رو سے سوشل میڈیا پہ میدان ِ جنگ کی مکمل تصویر نظروں کے سامنے گردش کرتی رہی۔ معلومات کے اسی تبادلے کی بنیاد پہ دشمن کے نقصانات سے دنیا باخبر ہوتی رہی۔ قابض نے تو اس کامیاب حملے کو کاؤنٹرکرنے کے لیے پوری مشینری حرکت میں لائی لیکن ان کا ہر داؤ سلطان راہی کی فلموں کی مانند ثابت ہورہا تھا۔ اس حوالے سے قابض ریاست کی جانب جو پہلی ویڈیوجاری کی گئی اس سے ہم ریاستی بوکھلاہٹ کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں جہاں قابض ریاست پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید”پنجگور“ کا نام ہی بھول گیا اور ”پنگ جور، پنگ جور“ کا راگ الاپتارہا۔ قابل فہم ہستیوں کے لیے ریاستی مشینری کی بوکھلاہٹ ہی میں بلوچوں کی فتح کی نوید تھی۔ شیخ رشید کے ساتھ ساتھ آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی بار بار اپنی قوم کو یہ یقین دہانی کروایا جارہا تھا کہ ہم نے اس حملے کو ناکام بنادیا اور انہیں اپنے آہنی قلعوں میں داخل ہونے سے قبل ہی ہلاک کردیا وغیرہ وغیرہ۔لیکن جنگ کی طوالت جو 72گھنٹوں تک جاری رہا نے سوشل میڈیا کی بندش کے باوجود ان کے دعوؤں کو خاستر کردیا۔

جب ریاستی مشینری کا یہ داؤ ناکام ہوا تو انہوں نے سوشل میڈیا میں اپنے گماشتوں کو متحرک کیا اور کہیں ”سوکالڈ نیشنلسٹ“ تو کہیں ”ناراض بلوچوں“ کا ذکر اور بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے ہر کوئی افلاطون بننے کی کوششیں کرتا رہا اور اس جنگ کو ماضی کے پاکستانی حکمرانوں کی غلطی قرار دیتے رہے تو کوئی سرداروں کو اس جنگ کا اہم محرک ثابت کرنے کی جہت کرتا رہا۔ اس حوالے سے ہم بھی ذرا ماضی کا طواف کریں گے تاکہ قارئین حالیہ جنگ کی نوعیت اور آنے والے دنوں میں اس کے محرکات سے آگہی حاصل کریں۔

طویل رقبے پہ پھیلا ہوا بلوچ سرزمین جس کے باسی گزشتہ چوہتر(74) سالوں سے پاکستانی عسکری اداروں کی بربریت کا شکار ہیں۔ مکران میں اپنی فوجیں اتارنے کے بعد 27 مارچ1948ء کو جب بلوچستان پہ پاکستانی عسکری اداروں نے مرکزی شہرقلات پہ دھاوا بول کے اپنے قبضے کو حتمی شکل دی تو اس وقت سے لیکر آج تک بلوچ قوم اپنی کھوئی ہوئی آزادی کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔پاکستان کا بلوچستان پہ جبری قبضے کے بعد بلوچستان کے قوم پرستوں کو گرفتار کیا گیا جن میں میرگل خان نصیر، غوث بخش بزنجو، ملک فیض محمد یوسف زئی، ملک عبدالرحیم خواجہ خیل، بہرام خان لہڑی سمیت دیگر درجنوں رہنما شامل تھے۔ قابض ریاست کو اس ضمن میں یہ خوف لاحق ہوا کہ اگر ان افراد کو گرفتار نہیں کیا گیا تو ممکن ہے کہ بلوچستان میں پاکستان کے خلاف مسلح محاز کھل جائے۔ یہ افراد چونکہ قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے پیداوار تھے اسی لیے پاکستان ان سیاسی کارکنوں سے خوف زدہ تھا لیکن ان گرفتاریوں کے باوجود بلوچوں نے مسلح جدوجہد کی راہ اپنائی اور اس ضمن میں مکران کے گورنر پرنس آغا عبدالکریم خان سب سے پہلے مسلح ہوا۔ یہ جدوجہد جو پاکستانی قبضے کے فوراً بعد ہی شروع ہوگئی جس میں پرنس آغا عبدالکریم خان کے ساتھ دیگر نامی گرامی شخصیات جن میں بلوچ دانشور محمدحسین عنقا، ملک سعید دہوار، مولوی محمدافضل مینگل، سمیت ہزاروں مسلح افراد اپنی تیار یاں مکمل کرچکے تھے۔

بلوچ لشکر نے جب قلات کی جانب پیشقدمی شروع کی”شیخڑی“ جو قلات شہر سے کچھ ہی فاصلے پہ واقع ہے یہاں ان کی پاکستانی فوج کے جھڑپ ہوئی جس میں ایک بلوچ سرمچار شہید ہوگیا۔ یہ کاروائی ابھی جاری تھی کہ”مسٹر وائی ڈی فل“ جو اس وقت قلات کے وزیراعظم تھے، انہوں نے پاکستانی عسکری اداروں کے اہلکاروں کو پیچھے ہٹنے کو کہا اور خود پرنس عبدالکریم خان کے پاس چلاگیا اور اسے اس مسئلے کے حل کے لیے بات چیت کی راہ اپنانے کی تجویز دیتے ہوئے یہ یقین دہانی کروایا کہ ان کے تمام مطالبات مان لیے گئے گئے ہیں اور بلوچوں نے اس انگریز ایجنٹ کی باتوں پہ یقین کرتے ہوئے ان کے ساتھ چل دیے۔جوں ہی آغاعبدالکریم خان اور اس کے ساتھ دوسو بلوچ سرمچار پاکستانی فوج کے نرغے میں آگئے تو مسٹر ڈی وائی فل نے شہزادہ عبدالکریم خان کو اطلاع دی کہ پولیٹیکل ایجنٹ قلات ان کے طے شدہ فیصلے سے متفق نہیں۔یوں آغا عبدالکریم کو دھوکے سے گرفتار کرلیاگیااور یوں پہلی لڑائی قابض بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ برطانوی حکم سے اپنے انجام کو پہنچا۔اس کے بعد 1958ء، 1962ء،1964ء، اور ستر کی دہائی میں وقفے وقفے سے مسلح تحریک چلتی رہی۔

ستر کی دہائی میں بلوچوں کی افغانستان مہاجرت کے بعد بظاہر خاموشی نظر آرہی تھی لیکن وہاں بیٹھ کر جہدکاروں نے آنے والے دنوں کے لیے تیاریاں شروع کررکھی تھی۔ اس دوران ہم واضح تبدیلی بھی دیکھ رہے تھے کہ بلوچ آزادی پسند فوکو تھیوری سے ہٹ کر بلوچ تحریک کو آگے لے جانے کی کوشش کررہے تھے۔ اس ضمن میں شہید فدا احمد بلوچ کافی متحرک تھے ان کے نظریے کے مطابق دورِ جدید میں مکمل ادارتی نظام کے بغیر تحریک کی کامیابی یقینی نہیں لہذا تحریک کو وقت و حالات کے سانچے میں ڈالنے کے لیے سیاسی جماعت کی جانب پیش رفت کرنی چاہیے۔ اپنی اس سوچ کو حتمی شکل دینے کے لیے انہوں نے جنوری 1987ء میں بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ(BNYM)کی بنیاد کھ دی۔قابض کو اس بات کا یقیناً ادراک تھا کہ اگر سیاسی ثقافت پروان چڑھی تو بلوچ تحریک آزادی کے تسلسل کو روکنا ممکن نہیں ہوگایہی وجہ ہے کہ جماعتی سیاست کی راہ مسدود کرنے کے لیے 2مئی 1988ء کو بلوچستان نیشنل یوتھ موونٹ (بی این وائی ایم) کے سربراہ فدا احمد بلوچ کو شہید کیا گیا۔ شہید فدا احمد کی شہادت کے واقعہ نے جہد آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اگر اس دوران شہید فدا احمد بلوچ کی شہادت کا واقعہ پیش نہ آیا ہوتا تو یہ امکانات تھے کہ حالیہ تحریک میں شدت ہم 90ء کی دہائی کے شروعات میں دیکھتے۔ جس دوران شہید فدا احمد بلوچ بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ (BNYM)کو حتمی شکل دینے کی جدوجہد مصروف تھے انہی دنوں یعنی 1986ء میں بلوچ آزادی پسند بلوچستان میں عسکری کیمپ قائم کرچکے تھے۔ جس سے اس بات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ مسلح کارروائیاں پہلے ہی شروع کرنی تھی۔

بارہ سالوں تک بلوچ سرمچار عسکری کیمپوں میں تربیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ موبالائزیشن کے عمل کو پروان چڑھاتے رہیں۔ اس کے بعد بلوچ سرمچاروں نے 1998ء میں کوئٹہ شہر میں کبھی کبھار کوئٹہ چھاؤنی پہ راکٹ فائر کرنے کے ساتھ اپنی مسلح کاروائیوں کی شروعات کی تھی اس کے علاوہ 1999ء میں کوئٹہ میں گیس پائپ لائن دھماکہ جو سریاب کے علاقے میں پیش آیا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اسی سال یعنی 1999ء میں بلوچستان لبریشن فرنٹ(BLF)بھی بلوچ قومی رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ، استاد واحد قمبر اور شہید سعادت مری کی رہنمائی میں تشکیل پاچکا تھا۔ البتہ تحریک کا نام غالباً 2001ء میں سامنے آیا جہاں مختلف علاقوں میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے پمفلٹ تعلیمی اداروں کے ساتھ بعض دیگر مقامات پہ آویزاں کیے گئے۔بلوچ لبریشن آرمی کے پمفلٹنگ کے دو سال بعد شہید غلام محمد بلوچ نے بلوچ نیشنل موومنٹ(بی این ایم) کی بنیاد رکھ دی جس میں انہوں نے واضح طور پہ اس امر کی نشاندہی کی کہ قومی آزادی کے لیے ادارتی طرز سیاست کلیدی کردار کا حامل ہے اور بلوچ نیشنل موومنٹ مسلح محاز پہ موجود آزادی پسند تنظیموں (جو ان دنوں بلوچستان لبریشن فرنٹ(بی ایل ایف) اور بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے) کی شکل میں موجود تھے)کی حمایت کا اعادہ کیا جو باقاعدہ طور پر پارٹی کے آئین کا حصہ ہے۔

بلوچ تحریک آزادی کے مختصر جائزے سے اسکے محرکات تک پہنچنے میں کسی قسم کی دشواری نہیں کہ بلوچوں نے آزادی کی اس جنگ کو اپنے انجام تک لے جانے کی پوری تیاری کر رکھی ہے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ آزادی کی تحریک آگ کا دریا ہے، جسکی تپش انقلابی اپنا لہو اس یقین کے ساتھ بہا کر بجھاتے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں آتش اور خون کی ہولی کھیلنے کی بجائے تعمیر و ترقی کی شاہراہ پہ گامزن ہوں اور ستاروں پہ کمندیں ڈال کے نئی دنیا تسخیر کریں۔

یہ جذبہ حریت کامرانی کی جانب لے جانے کا سبب ہے اور بلوچ کی جنگ جو آج اپنے عروج پہ ہے اس میں کلیدی کردار اسی جذبے میں موجزن ہے جو آنے والے دنوں میں قابض ریاست کے پاؤں اکھاڑنے کا موجب بنے گا۔ اب جہاں وہ خفیہ طور پہ اپنے سربراہ مملکت کو خط ارسال کرتا ہے کہ میرے 190جوان نوشکی اور پنجگور میں مارے گئے ہیں پھر ان کی تعداد شمار کرنے والا شاید کوئی نہ ہو لہذا اب بھی موقع ہے کہ قابض ریاست اور اس کے گماشتے بلوچ قوم کی تاریخی حیثیت کو قبول کریں اور ایک ہمسائے کی صورت میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی جانب قدم اٹھائیں کہیں ایسا نہ ہوکہ نہرو کی بانسری ان کے ہاتھ میں ہو اور باقی کے پاکستان سے بھی انہیں ہاتھ دھونا پڑے۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here