میانمار: ہزاروں والدین کا فوجی حکومت مخالف بچوں سے لاتعلقی کا اعلان

0
377

میانمار میں گزشتہ تین ماہ سے ہر روز اوسطاً چھ یا سات خاندانوں نے ملک کے ریاستی اخبارات میں اپنے ان بیٹوں، بیٹیوں، بھانجیوں، بھانجوں اور پوتوں کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کے نوٹس شائع کیے ہیں جنہوں نے برسراقتدار فوجی جنتا کی عوامی سطح پر مخالفت کی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اتنی زیادہ تعداد میں نوٹس اس وقت سامنے آنا شروع ہوئے جب نومبر میں فوج نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے مخالفین کی جائیدادوں پر قبضہ کر لے گی اور مظاہرین کو پناہ دینے والے لوگوں کو گرفتار کر لے گی۔

اس کے بعد کئی گھروں پر چھاپے مارے بھی گئے، فوج نے اس اعلان سے ایک سال قبل میانمار کی جمہوری طریقے سے منتخب حکومت سے اقتدار چھین کر قبضہ کر لیا تھا۔

رائٹرز کی جانب سے جائزہ لیے گئے اس طرح کے اظہار لاتعلقی کے تقریباً 570 نوٹسز میں سے ایک نوٹس سابق کار سیلز مین لِن لِن بو بو کے والدین کا بھی تھا، جس نے فوجی حکمرانی کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی۔

نومبر میں سرکاری اخبار ’دی مرر‘ میں لن لن بو بو کے والدین سین ون اور ٹن ٹن سو کی جانب سے شائع کرائے گئے نوٹس میں کہا گیا کہ‘ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا لن لن بو بو سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس نے کبھی اپنے والدین کی بات نہیں مانی‘۔

میانمار سے فرار ہونے کے بعد تھائی لینڈ کے ایک سرحدی قصبے میں رہائش پذیر 26 سالہ لن لن بو بو نے‘رائٹرز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ماں نے انہیں بتایا تھا کہ ہم تم سے اظہار لاتعلقی کر رہے ہیں کیونکہ فوجی ان کی تلاش میں ان کے خاندانی گھر پہنچے تھے، ان کا کہنا تھا کہ کچھ دنوں بعد اخبار میں نوٹس پڑھتے ہوئے وہ رو رہے تھے۔

نوجوان نے بتایا کہ ’میرے ساتھیوں نے مجھے حوصلہ دینے کی کوشش کی کہ سخت دباؤ کے باعث خاندانوں کے لیے ایسا کرنا لازمی ہے، لیکن میرا دل بہت ٹوٹا ہوا تھا‘۔

جب اس حوالے سے بات کرنے کے لیے رائٹرز کی جانب سے رابطہ کیا گیا تو ان کے والدین نے معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

انسانی حقوق گروپ برما مہم کے سینئر ایڈووکیسی افسر وائی ہینن پونٹ تھون نے کہا کہ 2007 اور 1980 کی دہائی کے اواخر میں بیامنی کے دوران میانمار کی فوج کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کے خاندانوں کو نشانہ بنانا ایک حربہ تھا لیکن یکم فروری 2021 کی بغاوت کے بعد سے اس کا استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے۔

وائی ہینن پونٹ تھون کا کہنا تھا کہ خاندان کے افراد کو عوامی طور پر لاتعلق کرنا، جس کی میانمار کی ثقافت میں ایک طویل تاریخ ہے، جواب دینے کا ایک طریقہ ہے لیکن وہ اب ماضی کے مقابلے میں میڈیا میں اس طرح کے زیادہ نوٹس دیکھ رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خاندان کے افراد جرائم میں ملوث کیے جانے سے ڈرتے ہیں، وہ گرفتار نہیں ہونا چاہتے اور مصیبت میں نہیں پڑنا چاہتے۔

ایک فوجی ترجمان نے ’رائٹرز‘ کی جانب سے اس معاملے پر کیے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

ان نوٹسز پر تبصرہ کرتے ہوئے نومبر میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران فوجی ترجمان زاؤ من تون نے کہا تھا کہ جن لوگوں نے اخبارات میں اس طرح کے اعلانات کیے ہیں، اگر وہ حکومت کی مخالفت کی حمایت کرتے ہوئے پائے گئے تو بھی ان پر فرد جرم عائد کی جاسکتی ہے۔

میانمار میں لاکھوں افراد، جن میں سے اکثر نوجوان تھے، ایک سال قبل ہونے والی فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

فوج کی جانب سے مظاہرین پر پرتشدد کریک ڈاؤن کے بعد کچھ مظاہرین بیرون ملک فرار ہو گئے یا ملک کے دور دراز علاقوں میں مسلح گروپوں میں شامل ہو گئے۔

ان مسلح گروپوں کو ’پیپلز ڈیفنس فورس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ گروپ کافی حد تک معزول سویلین حکومت کے ساتھ منسلک ہیں۔

مانیٹرنگ گروپ، اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز کے مطابق گزشتہ سال کے دوران سیکورٹی فورسز نے تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد کو ہلاک کیا، جن میں سے اکثر مظاہرین تھے اور تقریباً 12 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا، جبکہ فوج کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار مبالغہ آمیز ہیں۔

صحافی سو پیائے آنگ نے بتایا کہ انہوں نے مظاہروں کے سلسلے کو توڑنے کے لیے کی پولیس کی جانب سے لاٹھیوں اور شیلڈز کا استعمال کرتے ہنگامہ آرائی کی وڈیو بنائی اور اس ویڈیو کو ایک نیوز ویب سائٹ ’ڈیموکریٹک وائس آف برما‘ پر براست راست نشر کیا۔

انہوں نے بتایا کہ جب حکام نے ان کی تلاش شروع کی تو وہ اپنی بیوی اور نوزائیدہ بیٹی کے ساتھ تھائی لینڈ فرار ہونے سے قبل میانمار کے مختلف مقامات پر چھپ گئے، نومبر میں ان کے والد نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا تھا۔

صحافی کے والد ٹن آنگ کو، کی جانب سے میانمار کے سرکاری اخبار‘الن‘ میں شائع کیے گئے نوٹس میں کہا گیا کہ ’میں اعلان کرتا ہوں کہ میں اپنے بیٹے سے اظہار لاتعلقی کر رہا ہوں کیونکہ اس نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف ناقابل معافی سرگرمیاں کیں، میں ان سے متعلق کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں‘۔

سو پیائے آنگ کا کہنا تھا کہ ’جب میں نے وہ اخبار دیکھا جس میں مجھ سے تعلقات منقطع کرنے کا ذکر کیا گیا تھا تو مجھے تھوڑا سا دکھ ہوا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میرے والدین کو دباؤ کا خدشہ تھا، انہیں ان کے گھر پر قبضے یا گرفتاری کی فکر ہو سکتی ہے‘۔

ان کے والد ٹن آنگ کو نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

ایسے ہی نوٹسز میں اپنے بچوں سے انکار کرنے والے دو والدین، جنہوں نے فوج کی توجہ مبذول ہونے کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ نوٹسز کا بنیادی مقصد حکام کو یہ پیغام دینا تھا کہ انہیں اپنے بچوں کے اعمال کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔

ایک ماں کا کہنا تھا کہ ’میری بیٹی وہی کر رہی ہے جو اسے ٹھیک لگتا ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہم مصیبت میں پڑ گئے تو وہ پریشان ہوگی، میں جانتی ہوں کہ وہ سمجھ سکتی ہے کہ میں نے اس کے لیے کیا کیا ہے‘۔

رائٹرز سے بات کرتے ہوئے لن لن بو بو کا امید ظاہر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ ایک دن گھر جاکر اپنے خاندان کو سپورٹ کریں گے، ’میں چاہتا ہوں کہ یہ انقلاب جلد از جلد ختم ہو جائے‘۔

انسانی حقوق کی کارکن وائی ہینن پونٹ تھون کا کہنا تھا کہ ٹوٹے ہوئے کچھ خاندانوں کے لیے اس طرح کا دوبارہ ملاپ ممکن ہو سکتا ہے۔

سرکاری اخبارات میں شائع ان نوٹس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ جب تک وہ وکلا اور اپنی رضا مندی کے ساتھ اظہار لاتعلقی صحیح طریقے سے نہیں کرتے تب تک یہ چیزیں قانونی طور پر شمار نہیں ہوتیں، اور کچھ سالوں کے بعد وہ خاندان کے طور پر واپس مل سکتے ہیں۔

صحافی سو پیائے آنگ کا کہنا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ان کی اپنے والدین سے علیحدگی مستقل ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ’میرے پاس انقلاب کے بعد واپس جانے کے لیے گھر بھی نہیں ہے، میں ہر وقت پریشان رہتا ہوں کیونکہ میرے والدین قابض فوجی حکومت میں رہ گئے ہیں‘۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here