شہید رحمدل جان تحریر: ڈاکٹر جلال بلوچ

0
547

کہتے ہیں کہ”انقلاب اپنے بچوں کو خود نگلتی ہے“۔جب تحریک آزادی کی جانب نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ چار الفاظ حقیقت کا روپ لیے نظرآتے ہیں۔موجودہ جہد آزادی کو آج لگ بھگ بیس(20)سال کا عرصہ گزرچکا ہے اور اس دوران ہزاروں بلوچ عملِ انقلاب کو دوام بخشنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔

انقلاب کی قیمت چکانے والوں میں سے ایک ہستی شہید رحمدل عرف نیتا جان بھی ہے، جن کی عملی جدوجہد بلوچ تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ 4مارچ کی شام مجھے کسی دوست نے فون پہ جب شہید رحمد جان کی شہادت کی اطلاع دی تو یقین کرنا میرے لیے محال تھا، ہاں میں کیسے یقین کرسکتا تھا کہ وہ ہستی جو زخموں پہ مرہم رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو،کیسے ہمیں چھوڑ کے اس دنیا سے رخصت ہوسکتا ہے؟وہ ہستی جو اجتماعی سوچ کا پیامبر ہو،کیونکر ابدی زندگی کے لیے اتنی جلدی رخت سفرباندھ سکتا ہے، وہ ہستی جن کی مسکراہٹ میں باد نسیم کے جھونکے ہوں، وہ ہستی جو سوچ و فکر کا پیکر ہو، وہ ہستی جس نے اپنے ہمنواؤں کو جینے کا ہنر سکھایا ہو، اتنی جلدی وہ ابدی زندگی کی جانب کیونکر گامزن ہوسکتا ہے؟، وہ ہستی جو راستی مجسم ہو، کیسے ان پرآشوب حالات میں ہمیں تنہا چھوڑ سکتا ہے۔

اسے تو نور آزادی دیکھنا تھا، اسے نظارہ کرنا تھا اس صبح کا جس کے لیے یہ قوم گزشتہ سات دہائیوں سے برسرپیکار ہے، وہ جو مصائب میں مسکرانے اور مسکراہٹ بکھیرنے کا ہنر جانتا تھا، اسے قوم کے مغموم چہروں پہ مسکان دیکھنے کے لیے ابھی زندہ رہنا تھا۔ پر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔اور یوں 4مارچ کی شام مغربی بلوچستان کے ساحلی شہر چابہار میں رحمد جان قابض ریاست(پاکستان) کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے ناپاک عزائم کا شکار ہوا۔ شہید رحمدل بلوچ سے میری پہلی ملاقات مئی 2015ء میں بالگترگڈگی کے مقام پہ ہوا جہاں ان دنوں ہم بلوچ نیشنل فرنٹ کے توسط سے منعقد ہونے والے جلسے کی تیاریاں کررہے تھے۔

اس کے بعد ملاقاتوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جن کا ظاہری اختتام تو شہید رحمدل جان کی شہادت پہ واقع ہوا، لیکن ملاقاتوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔۔۔جہاں تصور میں ہم آج بھی قومی بقاء کے لیے گفت وشنید کرتے رہتے ہیں۔ شہید رحمدل جان نے سیاسی زندگی کا آغاز کب اور کس پلیٹ فارم سے کیا اس بابت مجھے کوئی خاص علم نہیں لیکن انہیں سیاست پہ ماہرانہ دسترس حاصل تھا۔ عمومی طور پر ایک سیاسی ورکرمیں ایک بہترین سماجی ورکر کی خصوصیات ہونے چاہیے کیوں کہ اس کا تعلق ہمیشہ سماج سے ہی بندھا رہتا ہے، اگر سیاسی کارکن میں سماج کو پرکھنے کی صلاحیت معدوم پڑجائے تو اس کے لیے منزل کا حصول ناممکن بن جاتا ہے۔جب ہم شہید رحمدل جان کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ اس ضمن میں ہمیں ایک مکمل سیاسی کارکن کی صورت میں نظرآتا ہے یا بقول پالو فرارے کہ”لیڈر وہ ہے جو عوام کے ساتھ مل کر کام کرے۔“ نیتا جان اس خاصیت کا پیکر تھا جو پالو فرارے کے نزدیک ایک رہنما میں ہوتا ہے۔شہید رحمدل جان بھی ایک رہنما تھا اور انہوں نے بلوچ نیشنل موومنٹ کی پلیٹ سے بارہ سالہ انقلابی سفر میں ہر مقام پہ خود کو ایک رہنما ثابت کیا۔شہید رحمدل جان کی یہ قائدانہ صلاحیتیں دراصل اس کی سیاسی بصیرت کی وجہ سے ممکن ہوا جہاں انہوں نے انقلابی جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ میں بنیادی اکائیوں سے انقلابی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ شہید رحمد جان کو اس بات کا ادراک تھا کہ سیاسی عمل کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے لازم ہے کہ بنیادی اکائیوں سے آغاز کیا جائے اسی لیے شہید رحمدل جان نے انقلابی سیاست کا آغاز کیچ کا علاقہ ”سامی“ سے بحیثیت ایک سیاسی کارکن کے کیا اور مکمل سیاسی عملسے گزرتا ہوا یونٹ سیکرٹری، زونل صدر اوراپریل 2015ء میں ریجنل وائس پریزیڈنٹ منتخب ہوا جب کہ 2017ء میں ریجنل صدر شہید سلیمان جان کی شہادت کے بعد ریجنل صدر کی ذمہ داریاں نبھاتا رہا۔

آزادی کے اس سفر میں شہید رحمدل جان نے تمام مصائب کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ انقلاب ایک پرکھٹن اور پر خطر راہ ہے، اسی لیے اس کی وہ باتیں جن کا اظہار کبھی انہوں نے یوں کیا کہ”کہ انقلابی عمل کی کامیابی کے لیے لازم ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ یہ عمل صد فیصد ہمیں موت کی آغوش میں سلانے کے لیے اپنے پر تول رہا ہوتا ہے لہذا اس کام میں راہ فرار کی کوئی گنجائش نہیں اور اس سفر میں وہی لوگ کامیاب ہوسکتے ہیں جو رسک لینے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہوں، اور یہ صلاحیتیں ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جن میں قوم کو روشن مستقبل سے روشناس کرنے کا جذبہ موجود ہو۔“ ہاں شہید رحمد جان انقلاب حقیقتاً موت کا پیامبر ہے پر اس راہ میں مرنے والے مر کے بھی زندہ رہتے ہیں جیسے آج جہد آزادی کے ہزاروں جانثار جو جسمانی طور پر تو ہم سے جدا ہوچکے ہیں پر ان کے آدرش کارواں انقلاب کو جاویداں رکھا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here