مقبوضہ بلوچستان کی صورتحال | ظفر بلوچ

0
320

مقبوضہ بلوچستان کے لوگ اپنی بقاء اور قومی سالمیت کے لیے گزشتہ سات دہائیوں سے جدوجہد کررہے ہیں۔ ان سات دہائیوں کی جدوجہد میں بلوچ قوم نے کسی قسم کی قربانی سے گریز نہیں کیا۔ پاکستانی قبضےکے بعد جو استحصال کا سلسلہ شروع ہوا اس نے سماجی اور معاشی حوالے سے قوم کو بری مفلوج کیا لیکن اس کے باوجود قوم کی قربانیاں قابل ستائش ہیں جہاں فقط حالیہ تحریک میں پچاس ہزار سے زائد بلوچ فرزند ریاستی عقوبت خانوں میں زندگی سے زیادہ موت کے قریب ہیں، دس ہزار سے زائد مسخ شدہ لاشیں، لاکھوں کی تعداد میں اندرون بلوچستان اور ہمسایہ ممالک کی جانب مہاجرت ان حالات کا سامنا کر نے کے باوجود تحریک کامیابی سے جانب منزل رواں ہے۔ تحریک کا یہ متحرک انداز یقینا عوام کے حوصلے اور جہد کاروں کی مستقل مزاجی کی وجہ سے ہے۔

بلوچ جدوجہد جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جاری ہے اور جس دشمن کے ساتھ بلوچ قوم کا مقابلہ ہے وہ ایک شکست خوردہ بدنام اور داغدار ریاست ہے جو نہ صرف بلوچ قوم کے لیے درد سر ھے بلکہ پورے اقوام عالم کے پر امن اور روشن مستقبل کے لیے اس کا زوال ناگزیر ہے۔ مذہب کے نام پر قائم ہو نے والا یہ ریاست جہاں جہادی فورسز اور خلافت عثمانیہ کے کہیں دعویدار دھڑیں جی ایچ کیو میں اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی شکل میں پاکستانی آرمی اور آئی ایس آئی میں حاضر سروس فوجی بریگیڈ کی شکل میں موجود ہیں جو آرمی کی وردی میں ملبوس اور سول ڈریس میں پاکستان سمیت مختلف ریاستوں میں جہادیوں کو تربیت دے رہے ہیں اور اپنی انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مضبوط کررہے ہیں اور محفوظ ٹھکانوں میں منتقل کی جارہی ہے۔ اس ریاست کے بے لگام اداروں کو کھلی چھوٹ دینا بغیر اجازت دوسری ریاستوں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کسی بڑی تباہی سے کم نہیں۔ لہذا مہذب دنیا کے تمام دانشوروں لکھاریوں اور صحافیوں کو اس دہشت پھیلانے والے ریاست کے خلاف یک مشت ھونے کی اشد ضرورت ہے نہیں تو کل مہذب دنیا کے تمام ریاستیں تاریخ اور مظلوم اقوام کے سامنے جواب دہ ھونگے۔

قابض ریاست دہائیوں سے مسلسل بلوچ قوم کی نسل کشی مصروف عمل ہے لیکن ذمہ دار ریاستیں ہمیشہ کی طرح خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس طرح خاموش تماشاہی بننا کسی بڑے جرم سے کم تصور نہیں ھوگا جہاں آتش و آہن کی برسات جاری ہے، ہر گھر میں ماتم ہے، لوگوں کو اپنے پیاروں کی مسخ اور گولیوں سے چھلنی لاشوں کو تکفین کرنے کی اجازت نہیں ہے بغیر تکفین اور رسومات کے قابض ریاستی فورسز ٹریکٹرز کے ذریعے وحشی جانوروں کی طرح دفن کرتے ہیں۔ بلوچستان کے کونے کونے میں سینکڑوں ایسے لاوارث قبرستان آباد ہیں جو پاکستانی آئی ایس آئی اور ایم آئی کے کارندوں کی کارستانی کی شہادت دینے کے لیے کافی ہیں یہ درد ناک داستانیں تاریخ کے اوراق میں رقم ہوگا کہ قابض نے مظلوم قوم کے ساتھ اپنے کون کونسی وحشت نہیں آزمائیں۔

درجہ بالا تمام انسانی المیہ اس جدید دور میں اقوام عالم کے لیے لمحہ فکریہ ہیں مقبوضہ بلوچستان میں ایک بڑے انسانی المیے نے جنم لی ہیں اس انسانی المیے کا ذمہ دار قابض کے ساتھ مہذب دنیا بھی ہے۔ کیونکہ ظالم سے رحم کی توقع رکھنا جہالت اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی زمرے میں آتا ہے اسی لیے پوری دنیا پر یہ ذمہ داری عائد ھوتی ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور ظالم کو قانون کے کٹرے میں لانے کی عملی کوشش کریں۔ ریاستیں قوموں کی بنیاد پر وجود میں آتی ہیں اور وہ قومیں بہت مقدس اور عالی شان ھونگے جو ایک قومی ریاست کو وجود میں لانے کے لیے نسلوں کی قربانیاں دینے کے بعد اپنے قومی شناخت اور وجود کو دنیا کے سامنے لانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور ایسی قوموں کی وجود میں آنا اور اپنی موقف پر مضبوطی کے ساتھ کھڑے ھونا آسان عمل نہیں۔ قومی ریاستیں قوموں کی زبان ثقافت اور رسم ورواج کے مطابق وجود میں آتی ہیں۔ جس سرزمین کی آغوش میں قوموں کا جنم ہوتا ہے اور جو اسی خاک کی آغوش میں جاتے ہیں سرزمین کے اصل وارث وہی ھونگے اور اس سرزمین کی تحفظ اور بقاء کی خاطر اپنے سرکو تن سے جدا کرنے سے نہیں کتراتے ہیں۔ سرزمین ماں ہے اور اسی سرزمین کی تحفظ کے بعد ریاستیں وجود میں آتی ہیں یہ قوموں پر منحصر ہیں کہ اپنی قومی سرزمین کے وجود کو کیسے برقرار رکھتے ہیں۔ طاغوتی طاقتیں ہمیشہ قوموں کو زیر کرنے میں لگی ھوتی ہیں۔ شیطانی اور بدنیتی پر مبنی سوچ کے حامل اور قابض اپنے منصوبے پر اُس وقت تک کامیاب نہیں ھوتے جب تک قومیں آپس میں متحد ہیں اور متحد قومیں اپنے قومی وجود کو برقرار رکھنے کے لیے دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو گھٹنے ٹھیکنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ھوتے ہیں اور ہر وہ سیسہ پلائی دیواروں کو گراتے ہیں جن کو قوموں کے وجود مٹانے کے لیے تعمیر کیا ھوتا ہے۔

آزاد اور خود مختار قومیں اپنی قومی اور ریاستی تعمیر و ترقی کے لیے یک آواز ھو کر ترقی کی منزل طے کرتے ہیں۔ غلام اور مظلوم قومیں ہمیشہ کے لیے اپنی قومی شناخت سے محروم ھوجاتے ہیں۔ دور جدید میں قابض اور اشرافیہ ٹولہ مظلوم اور محکوم قوموں کے خاتمہ کے لیے سالوں سے کمربستہ کھڑے ہیں لیکن محکوم اور مظلوم قوموں کو غلامی اور ذلت کی زندگی سے نجات صرف اتحاد اور اتفاق سے ملتی ہے۔ متحد قوَموں نے ہر وقت میں طاغوتی قوتوں کو شکست دی ہیں unity fath and discipline یعنی اتحاد یقین اور نظم ونسق قوموں کے وجود کو برقرار رکھتے ہیں unity کے ساتھ ساتھ قومی بقاء اور سالمیت کی خاطر جدوجہد لازمی ہے اور آبادکار کے خلاف قومی جدوجہد بہت ناگزیر ہے اور قوموں کے وجودکو نوآبادیاتی نظام سے بہت بڑے چیلنجز کاسامنا ہیں۔ قبضہ گیر قوموں پر قابض ھوتے ھوئے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں محکوموں کی جدوجہد تارپار کرتی ہے۔ نوآبادیاتی نظام کی کامیابی قوموں کی نسل در نسل تباہی کا ضامن ثابت ھوتی Damocracy یعنی نام و نہاد جموریت کے نام سے قوموں کے حقوق غصب کرتے ہیں اور قومی غلامی کو مزید طول دیتی ہے یعنی طویل غلامی کے بعد قومیں اپنے قومی شناخت اور وجود کو ہمیشہ کے لیے فراموش کرتے ہیں۔

قومیں اپنی قومی شناخت اور وجود کو کیوں فراموش کرتے ہیں؟

قومیں اس لیے اپنی قومی شناخت اور وجود کو فراموش کرتے ہیں کہ انہیں غلامی کا احساس دلانے والے نہیں ھوتے ہیں کہ آپ غلام ہیں حالانکہ قومیں پیدائشی غلام نہیں ہیں بلکہ قوموں کو غلام اور محکوم و مظلوم بنانے کے لیے باقائدہ ریاستیں وجود میں لائی گئی ہیں ہر ایک قوم کی قومی شناخت اور وجود ضرور ہے مگر قومی وجود کو برقرار رکھنے میں قومی شعور اجاگر کرنا لازم اور ملزوم ہیں قوموں کی شناخت سب سے پہلے زبان ثقافت اور رسم و رواج سے ھوتی ہیں قابض نے ہمیشہ قوموں کو اپنی زبان ثقافت رسم و رواج سے دور رہنے اور نفرت کرنے کا درس دیا ہے اور آج تک دے رہی ہیں جب قومیں اپنی زبان اور رسم و رواج کو بھول جاتے ہیں تو ہمیشہ کے لیے مٹ جاتے ہی۔ اسی لیے نوآبادیاتی نظام کے تحت سیکورٹی اسٹیٹ پاکستان کی شکل میں دنیا کے اندر مختلف نظریہ کی بنیاد پر موجود ہیں اور مختلف نظریے کے لوگ سیکورٹی اسٹیٹ کو چلا رہے ہیں جیسے پاکستان کو دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں لایا گیا ہے تو اس جیسے فوجی ریاست کی راتوں رات وجود میں آنے سے دیگر قومیں اپنی قومی آزادی اور قومی شناخت سے محروم ھوۓ ہیں تو پاکستان جیسے قابض ریاست میں عزت دار اور باوقار بلوچ قوم کے وقار کو قابضین نے شب خون مار کر ہمیشہ کے لیے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دی۔ بلوچستان میں پاکستان کے جبری الحاق کے فورا بعد جو عذاب بلوچ قوم پر نازل ھوا جو تاحال شدت کے ساتھ جاری ہے۔

گزشتہ سات دہائیوں سے قابض کی طویل ظلم و ستم کی داستانیں بیان کرنے میں لکھاری تھک جاتے ہیں لیکن قابض پاکستان کی جاری ظلم ستم کی داستان ختم نہیں ھوتے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری پاکستانی ظلم و جارحیت سے ہزاروں بلوچ فرزندوں نے بقائے بلوچ اور سرزمین بلوچستان کی آزادی کی خاطر شہادتیں نوش کی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی ٹارچر سیلوں میں اذیتں کاٹ رہے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشیں بلوچ کو ملی ہیں اور تا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے بقول بلوچ دانشور ڈاکٹر عبدالحکیم لہڑی صاحب کہ “بلوچ قوم غلام نہیں رہا ہے بلکہ مظلوم ہیں ہمیں جبری طور پر مظلوم ومحکوم بنایا گیا” اس جبری مظلومی و محکومی کے خلاف بلوچ قوم کو علمی و سائنسی بنیاد پر اپنی قومی آزادی کی خاطر جدوجہد میں شدت لانی ہے نہیں تو بلوچ قوم کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔ ہمیں اپنی قومی سرزمین پر اٹھنے اور بیھٹنے کے ساتھ ساتھ قومی تہوار منانے کا حق حاصل نہیں۔ ہم کس امید کے تحت زندہ ہیں، بظاہر ہم زندہ ہیں پر المیہ یہ ہے کہ بت کی طرح وجود رکھتے ہیں جس کا ریموٹ کسی اور کے ہاتھوں میں ہے۔ ایسی زںدگی سے موت کو گلے لگانا بہتر ہے جو ایک بار آتی ھے اور ساری ناامیدی کو ہمیشہ کی امیدوں میں تبدیل کرتی ہے۔ ریاست پاکستان، بلوچستان کو اپنی وحدت یا ایک فوجی یونٹ تصورکرتے آرہاہے لیکن اس صوبے کو ماسواۓ خون سےلت پت لاشوں کے علاوہ کوئی ترقی نہیں ملی ہے۔ جنرل ٹکا خان، جنرل یحیی خان اور فوجی جنرنل ایوب خان کے دور سے لیکر جنرل باجوہ تک ہر دور میں لفظ جموریت پاکستانی حکمرانوں کے زبانوں میں ورد ضرور ھوئے ہیں لیکن اصل حکمرانی فوجی جنرنیلوں کا رہا ہے۔ درجہ بالا تمام فوجی جنرنیلوں نے اپنی اپنی باری میں یا کیا کیا نہیں کیا لیکن مہذب دنیا کی خاموش تماشائی نے پاکستان کی بلوچ قوم پر ظلم و زیادتیوں میں باضابطہ اضافہ کیا۔

مقبوضہ بلوچستان میں جاری ظلم و زیادتیوں کا نوٹس نہ لینے سے بڑے بڑے انسانی المیے جنم لے رہے ہیں اور بلوچستان میں مظلوم بلوچ قوم پر ظلم وجبر کی مزید شدت بہت جلد آنے کو ہے جہاں لاکھوں کی تعداد انسانی جانیں ریاستی فورسز کے ہاتھوں لقمہ اجل بن جانے کے خدشات موجود ہیں جس طرح 16 دسمبر 1971 سے قبل بنگالی قوم پر مسلط ھوئے جہاں تیس لاکھ سے زاہد بنگالیوں کی شہادت رونما ھوئی یا سربیا اور بوسنیا کی یاد بلوچ قوم کو بھگتنا پڑے گا اور دیگر قابضین کی طرح پاکستانی فوج کی خونی رقص بلوچستان میں جاری رہے گا۔ مختلف حیلے وبہانے کو بنیاد بناتے ھوے بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہیں اور وفاقی و صوبائی گورنمنٹ بلوچستان کی ترقی اور امن وامان کی صورت حال پر روزانہ پریس کانفریس کرنے میں نہیں تھکتے ہیں اور بلوچستان کے خونی شاہراوں اور دہاتوں میں دن دھاڑے لوگوں کی جبری گمشدگیاں اور فورسز کے آپریشن جاری ہے۔ بلوچستان کے دیہاتی علاقوں سے فورسزکی بلاوجہ نقل و حمل سے لوگ بیزار ہیں لاکھوں کی تعداد میں بلوچستان کے شہری علاقوں میں لوگ بطور آئی ڈی پیز آباد ہیں اور کہیں علاقے سالوں سے پاکستان آرمی کے محاصرے اور نگرانی میں ہیں اور لوگ قید و بند کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جہاں لوگوں کے ذرائع معاش زمینداری اور گلہ بانی پر منحصر ہیں تو لوگوں کو گھروں سے سیکورٹی فورسز کی اجازت کے بٖغیر باہر جانے کی اجازت نہیں ہیں اور روز مرہ زندگی کی گزر بسر کے لیے کھانے پینے اور اشیا خردونوش کی خریداری کے لیے فوج سے اجازت لینا اور راشن ٹوکن کی وصولی کے بغیر خریداری بقائدہ جرم ہے۔ کسی دوسرے علاقے سے آۓ ھوئے مہمان کی آمد سے قبل سیکورٹی فورسز کو اطلاع دینی ھے کہ فلانہ شہر یا گاوں سے میرا ایک رشتہ دار میری حال پرسی کے لیے آرہاہے۔ ایک نئے پروگرام کا بقائدہ آغاز ھوا ہے اور میزبان کو مہمان کی شناخت اور تعلق داری کے متعلق ایک حلفیہ بیان جمع کرانی ھے اور مہمان کی واپسی کا بقائدگی کی ایک حد مقرر ہے زیادہ دیر تک مہمان کو میزبان کے ہاں رہائش کرنے کی بھی اجازت نہیں، خلاف ورزی پر جرم مقرر ہے۔
…………یہ ہے مقبوضہ بلوچستان کی صورت حال

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here