برطانیہ کاانسانی حقوق کے حوالے دوہرا معیار ہے اورسیکورٹی ادارے پر نسل پرست ہیں، حیربیارمری

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

آزادی پسند بلوچ رہنما اور فری بلوچستان موومنٹ کے صدر حیربیار مری نے ایک بیان میں کہا کہ برطانیہ کا جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویٰ محض ڈھونگ ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے برطانیہ کا دوہرا معیار ہے اور اس کے سیکورٹی اور قانونی ادارے فطری طور پر نسل پرست ہیں۔

حربیار مری نے کہا کہ برطانوی انٹیلی جنس اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے روس کو اس لئے تنقید کا نشانہ بنایا اور اس پر پابندیاں لگائیں کیونکہ الیکسی ناوالنی کو زہر دیا گیا تھا اور بنیادی انسانی حقوق جیسے کہ صحت کی دیکھ بھال تک آزادانہ رسائی نہ دینا تھا، جبکہ آزادی پسند بلوچ کارکنوں کے ساتھ برطانوی حکومت کا رویہ کچھ مختلف نہیں ہے۔

واضع رہے کہ اس سے پہلے بلوچ آزادی پسند رہنماحیربیار مری نے کبھی بھی اپنے ذاتی معاملات یا خاندان کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا تھا، لیکن 21 دسمبر 2021 کو، جب وہ اور ان کی اہلیہ کو لندن کے ایک اسپتال سے جرمنی منتقل کیا جا رہا تھا، تو 21 دسمبر 2021 کو، برطانیہ کی انٹیلی جنس نے ہوائی سفر کو روکھنے اور اس میں خلل ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

حیربیار مری نے بتایا کہ جب انہیں ائیرپورٹ منتقل کیا جا رہا تھا،تو اہرپورٹ میں پہلے سے موجود انٹیلی جنس اہلکاروں نے ان کے ایمبولینس کو گھیر لیا جس کے ذریعے ان کو ایمرجنسی میڈیکل فلائیٹ میں منتقل کیا جارہا تھا۔

بلوچ رہنما کے مطابق“روانگی کے عمل کے دوران، برطانوی انٹیلی جنس ایجنٹس سادہ کپڑوں میں اپنی شناخت کیے بغیر پہنچے اور مجھے شیڈول 7 کے تحت روکا گیا اور تفتیش کے لیے ایک عمارت میں لایا گیا، اس دوران ہمارے موبائل فون ضبط کر لیے گئے۔

بلوچ رہنماء نے کہا کہ برطانوی انٹیلی جنس ایجنٹوں کو ان کے اور فیملی ممبر دونوں کے ذاتی موبائل فونز کے پاس ورڈ چاہیے تھے جس پر انہوں نے رضامندی دینے سے انکار کر دیا تھا۔

حیربیار مری نے کہا کہ طبی صورتحال کے باوجود، برطانوی حکام جو اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کے اقدامات سے پوری ہنگامی پرواز میں خلل پڑے گا اور اس میں تاخیر ہوگی اور مریض کی حالت کی سنگینی کو جانتے ہوئے بھی اس کو مکمل نظر انداز کیا گیا اور ہمارے فون واپس کرنے سے انکار کردیا گیا۔ برطانوئی اداروں کی طرف سے یہ کہا گیا کہ وہ مجھے اپنی اسٹریچر پر موجود اہلیہ کے ساتھ جرمنی جانے کی اجازت نہیں دیں گے جب تک میں ان کے زبردستی کے ناجائز مطالبات اور بلیک میلنگ کی تعمیل نہیں کرتا، یہ علم رکھنے کے باوجود کہ مریض کے ساتھ میرے سوا خاندان کا کوئی دوسرا افراد ہمراہ نہیں کو جو کہ مریض کا دیکھ بھال کرسکے”ضبط شدہ موبائل فونز میں حیربیار مری کے ضروری دستاویزات تھے جیسے کہ داخلے کے لیے ڈیجیٹل رجسٹریشن اور حیربیار مری اور ان کی بیمار اہلیہ کے CoVID19 PCR ٹیسٹ کے نتائج شامل تھے جو کہ قانونی طور پر جرمنی داخل ہونے اور سفر کرنے کے لیے ضروری تھے، خاص طور پر چونکہ جرمنی نے 19 دسمبر 2021 کے بعد سے غیر جرمن شہریوں کو برطانیہ سے جرمنی آنے پر پابندی لگا دی تھی لیکن جرمن حکومت کی طرف سے طبی ہنگامی صورتحال کے لیے اس قانون میں نرمی کی گئی تھی۔

حیربیار مری کے کہا ”برطانوئی اہلکاروں کی طرف سے مجھے بتایا گیا کہ یہ میرا ”آپ کا“مسئلہ ہے کہ آیا جرمن حکام مریض کو COVID پاس یا ویکسی نیشن کے ثبوت کے بغیر اجازت دیں گے یا نہیں، یہ جاننے کے باوجود کہ یہ دستاویزات صرف ہمارے ضبط کیے گئے موبائل فون پر ہی دستیاب ہیں۔”برطانوئی اہلکاروں کی طرف سے جان بوجھ کر جرمنی میں داخلے کو مسترد کیے جانے کا خطرہ کیا گیا تاکہ حیربیار مری اور ان کی اہلیہ کے ضبط کیے گئے موبائل کے پاس ورڈ انٹیلی جنس اہلکاروں کے حوالے کرنے کے ناجائز حکم کی تعمیل کریں۔

حیربیار مری کے مطابق ان کی اہلیہ کا ان کی سیاسی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں مگر اس کے باوجود برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی نے شدید بیمار مریض، ان کی پرائیویسی اور حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر اخلاقی طور پر ذاتی میڈیکل ایمرجنسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھ پر اہلکاروں کے ناجائز مطالبات کی تعمیل کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے اس صورت حال کو استعمال کیا۔

حیربیار مری نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا کوئی ایسی بین الاقوامی تنظیم ہے جو اس کیس کو اٹھائے اور طاقت کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی مزید تحقیقات کرے کہ کس قانون کے تحت ایک شدید بیمار انسان کے ذاتی املاک کو ضبط کر لیا گیا جس کا سیاسی عمل سے کوئی تعلق نہیں۔

بلوچ رہنما نے مزید کہا کہ افغانستان کے ہلمند میں 400 سے زائد برطانوی فوجیوں کی ہلاکت میں پاکستان کے براہ راست ملوث ہونے کے باوجود، برطانوی ادارے اپنے ہی فوجیوں کے قاتلوں کو خوش کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ برطانوی حکومت انسانی حقوق کے حوالے سے جو چاہے دعویٰ کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بات کی جائے تو بورس جانسن کی حکومت اور عبدالفتاح السیسی انتظامیہ میں زیادہ فرق نہیں ہے۔

Share This Article
Leave a Comment