بین الاقوامی امدادی تنظیم، آئی سی آر سی کے ڈائریکٹر جنرل رابرٹ ماردینی نے کہا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال تباہی کی طرف جارہی ہے اور امدادی ادارے اپنے ساتھ بے شک اقوامِ متحدہ کے دیگر اداروں کو بھی ملا لیں تب بھی افغانستان میں جاری معاشی بحران پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی معاشی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ضروریات صرف عالمی برادری کے یکجا ہو کر افغانستان میں جاری معاشی بحران کو نمٹانے کے بارے میں سنجیدگی دکھانے اور حل ڈھونڈنے سے ہی پوری ہوسکتی ہیں۔
بین الاقوامی فلاحی تنظیم انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کے ڈائریکٹر جنرل رابرٹ ماردینی اس وقت او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان میں موجود ہیں۔
بی بی سی سے خصوصی گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ ‘یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی بے سرو سامانی اور معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ ہم ایسے لوگوں سے بھی ملے ہیں، جنھوں نے اپنا سامان تک بیچ دیا ہے تاکہ بچوں کو کھانا کھلا سکیں۔ معاشی بحران اس درجے کا ہے کہ اس وقت سرکاری و نجی اداروں کے چھ لاکھ ملازمین تنخواہوں کے منتظر ہیں۔ افغانستان کا انسانی بحران وہاں جاری معاشی بحران سے جڑا ہے۔’
انھوں نے کہا کہ افعانستان اس وقت معاشی بحران سے دو چار ہے۔
افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو امریکہ منجمد کرچکا ہے جبکہ طالبان کے آنے کے بعد مالی امداد بھی بند ہوچکی ہے۔ ملک میں جہاں مہنگائی بڑھ چکی ہے وہیں آدھی سے زیادہ آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔
آئی سی آر سی کے 23 ہسپتال قومی و صوبائی سطح پر لوگوں تک ایمرجنسی اور پرائمری مدد فراہم کررہے ہیں۔ اس وقت آئی سی آر سی کے 1800 ملازمین افغانستان کی 11 سائیٹس پر موجود ہیں لیکن آئی سی آر سی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اس وقت سکیورٹی ایک بڑا چیلنج ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ’افغانستان کے کئی صوبے کشیدگی سے دوچار ہیں۔ ہم اب بھی زیادہ آبادی والے علاقوں میں بار بار حملے ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں لوگ زخمی ہو کر ہسپتال آتے ہیں اور پھر وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جہاں ہسپتال تو ہیں لیکن وہاں علاج نہیں ہورہا۔ دوسری جانب، حملوں کے نتیجے میں لوگوں تک امداد پہنچانا ایک مشکل مرحلہ بن چکا ہے۔ لیکن اس دوران ہم ریڈ کراس اور دیگر فلاحی اداروں کی مدد سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔’
واضح رہے کہ رواں برس اکتوبر میں امریکی وفد نے قطر میں طالبان کے نمائندگان سے ملاقات کے دوران افغانستان کو فلاحی امداد دینے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ افغانستان میں اپنے رہ جانے والے شہریوں کو بحفاظت نکالنے کے بارے میں طالبان سے براہِ راست بات کی تھی۔