ایرانی پارلیمان اور اسلامی مشاورتی اسمبلی کے رُکن احمد نادری نے پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف حسین سلامی کے ساتھ پارلیمنٹ کے بند کمرے میں ہونے والی ملاقات کے بارے میں خبر رساں ادارے اسنا کو بتایا کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے قبل ہمارے فوجی مشیر اور افواج آخری لمحے تک شام میں موجود تھیں۔
تاہم نادری نے اس بات پر زور دیا کہ ’اس وقت شام میں کوئی ایرانی فوجی موجود نہیں ہے۔‘
ایران کی اسلامی مشاورتی اسمبلی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ایک رکن نے بتایا کہ آج کے بند اجلاس میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) کے کمانڈر انچیف سردار حسین سلامی نے خطے میں ایران کی فوجی حکمت عملی، اسرائیل کی کارروائیوں، اور ایران کے ممکنہ ردعمل کے حوالے سے بریفنگ دی۔
مجتبیٰ یوسفی، جو مجلس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن ہیں، نے تسنیم نیوز ایجنسی کے پارلیمانی رپورٹر سے گفتگو میں اس ملاقات کی تفصیلات بیان کیں۔
انھوں نے کہا کہ اس اجلاس میں آئی آر جی سی قدس فورس کے ایک سینئر اہلکار کی شرکت متوقع تھی، لیکن بعض وجوہات کے باعث وہ پارلیمنٹ میں حاضر نہ ہو سکے۔
یوسفی کے مطابق، اجلاس میں بنیادی گفتگو خطے میں ایران کی موجودہ فوجی حکمت عملی، سیکیورٹی، انٹیلی جنس، اور عسکری حالات پر مرکوز تھی۔
انھوں نے مزید کہا کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے قریب حالات اور خطے میں آئندہ ممکنہ پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ یوسفی نے واضح کیا کہ بشار الاسد حکومت کے خاتمے سے قبل آخری لمحے تک ایرانی فوجی مشیر اور فورسز شام میں موجود رہیں، لیکن اب شام میں ایران کی کوئی افواج موجود نہیں ہیں۔
یوسفی نے کہا کہ اس اجلاس میں پانچ اراکین پارلیمنٹ نے اپنی آراء پیش کیں، جبکہ سردار سلامی نے دو بار خطاب کیا اور اجلاس میں اٹھائے گئے نکات کا خلاصہ پیش کیا۔
بشار الاسد حکومت کی حمایت میں فاطمیون ڈویژن کے حصے کے طور پر ایران کی حمایت سے شام میں حزب اختلاف کے خلاف لڑنے والے افغانوں کا ایک گروپ اب صدر کا تختہ الٹنے اور دمشق سے فرار ہونے کے بعد ’لاتاکیا‘ کی بندرگاہ پر پھنس گیا ہے۔ فاطمیون ڈویژن ایرانی حمایت یافتہ افغان شیعہ ملیشیا پر مشتمل ہے۔
احمد نادری نے خبر رساں ادارے اسنا کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ’پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے ایک عہدیدار کو بھی اس اجلاس میں شرکت کرنی تھی لیکن وہ نہیں آسکے۔‘
قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ترجمان ابراہیم رضائی نے حسین سلامی کی موجودگی میں پارلیمنٹ کے بند کمرے کے اجلاس کے بعد کہا کہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر نے اس بات پر زور دیا کہ ’کسی بھی چیز نے ایران کی طاقت کو کم نہیں کیا ہے ہم دشمن کے تمام اہم مفادات پر اب بھی غالب ہیں۔‘
واضح رہے کہ ایران شام کے معزول صدر بشار الاسد کا قریبی اتحادی رہا ہے۔
ایرانی حکومت کی ترجمان فاطمہ مہاجرانی کا کہنا تھا کہ شامی فوج کسی نہ کسی طرح کچھ فوجیوں کے داخلے کو روکنے سے قاصر یا تیار نہیں تھی اور ہم نے شام میں حکومت کی تبدیلی دیکھی ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم شام کی علاقائی سالمیت اور قومی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں اور شام کے عوام کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ شام کی قسمت کا فیصلہ اس ملک کے عوام کو کرنا چاہیے۔‘
مہاجرانی کے مطابق ایران شام میں ہونے والی پیش رفت کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔