اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے آج شام کی صورتحال سے متعلق ایک اہم بیان جاری کیے جانے کا امکان ہے۔ سلامتی کونسل کی جانب سے بیان جاری کرنے کا فیصلہ شام میں حالیہ پیش رفت کا جائزہ لینے کے لئے بند کمرے میں ہونے والے اجلاس کے بعد کیا گیا۔
تاہم روس اور امریکہ دونوں ہی کی جانب سے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ شام کی علاقائی سالمیت کا تحفظ شہریوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ارکان نے شام کی صورتحال کو ‘غیر معمولی’ قرار دیا اور کہا کہ انھیں مزید پیش رفت کی توقع ہے۔
کونسل کے ارکان نے شام میں انسانی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب سفیر رابرٹ ووڈ نے کہا کہ شام کی صورتحال پر کونسل کے اجلاس کا مقصد اس مسئلے کے لیے یک زبان ہو کر آواز اُٹھانا ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے شامی کمیشن کے کوآرڈینیٹر کا کہنا ہے کہ بشار الاسد کے حراستی مراکز کے حالات کو ظاہر کرنے والی فوٹیج اور تصاویر ’تکلیف دہ‘ تو ہیں مگر ’حیران کر دینے والی نہیں‘ ہیں۔
بی بی سی ریڈیو 4 کے ٹوڈے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے لینیا آرویڈسن بتاتی ہیں کہ اقوام متحدہ کی ٹیمیں 2011 سے شام کے حراستی مراکز کے بارے میں معلومات جمع کر رہی ہیں اور سابق قیدیوں سے بات کر رہی ہیں لیکن انھیں اب اسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پیر کے روز ہی ان مراکز تک رسائی حاصل ہوئی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کھڑکیوں کے بغیر ان زیر زمین سیلز یا کوٹھڑیوں کو دیکھنا، جہاں لوگوں نے سورج کی روشنی کے بغیر برسوں اور دہائیاں گزاری ہیں انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ہم نے جن حالات کے بارے میں سنا تھا وہ واقعی اس سے مماثلت رکھتے ہیں جو ہم دیکھ رہے ہیں۔‘
کمشنر کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے ذریعے ان سب کے خلاف مقدمہ چلانے کی کوششوں کو ’ویٹو‘ کیا گیا تھا اور آئی سی سی کے پاس شام میں مداخلت یا وہاں اپنے لوگوں کو بھیجنے کا اختیار نہیں۔ تاہم آرویڈسن تجویز کرتی ہیں کہ اب سب کُچھ سامنے آنے کے بعد انصاف ہونا چاہیے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’یہ شام میں ایک نیا دن ہے اور وہ راستے بھی دکھائی دینے لگنے ہیں کہ جن تک رسائی 2011 کے بعد سے محدود یا نا ہونے کے برابر تھی۔