افغانستان میں ماورائے عدالت 72 ہلاکتوں کے پیچھے طالبان کا ہاتھ ہے، اقوام متحدہ

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں 100 سے زائد ماورائے عدالت ہلاکتیں ہوئیں، جن میں سے زیادہ تر میں طالبان ہی ملوث رہے۔

اقوام متحدہ نے منگل چودہ دسمبر کو ایک بیان میں کہا کہ کابل پر طالبان کے قبضے اور افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک افغانستان میں ہونے والی ماورائے عدالت ہلاکتوں کے بارے میں اُسے معتبر اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان سے پتا چلا ہے کہ ایسے زیادہ تر قتل خود طالبان نے کیے ہیں۔

جینیوا میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کی نائب کمشنر نادا الناشف نے بیان دیتے ہوئے کہا، ” اگست سے نومبر کے درمیان ہمیں معتبر اطلاعات موصول ہوئے ہیں جن کے مطابق افغانستان کی سابقہ نیشنل سکیورٹی فورسز اور سابق حکومت سے وابستہ دیگر افراد کی 100 سے زیادہ ہلاکتوں میں سے کم از کم 72 ہلاکتیں طالبان سے منسوب ہیں۔“

اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن نے رواں برس اگست کے ماہ میں طالبان کی طرف سے سابقہ حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی کابل پر قبضہ کرنے اور اقتدار پر گرفت مضوط کرنے کے بعد سے اب تک کی صورتحال کا جائزہ پیش کیا ہے۔ اس کے مطابق سقوط کابل کے فوراً بعد ہی سخت گیر موقف رکھنے والے انتہا پسند طالبان نے قتل وغارت کا بازار گرم کرنا شروع کر دیا۔

100 سے زائد افغان باشندے جو سابقہ حکومت کے دور میں قومی سلامتی کے اداروں سمیت دیگر شعبوں سے منسلک تھے، کا قتل ہوا۔ کٹر نظریات کا حامل یہ انتہا پسند گروپ کم سن لڑکوں کو بطور سپاہی بھرتی کر رہا ہے اور خواتین کے حقوق کو بُری طرح کچل رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی نائب کمشنر برائے انسانی حقوق نادا الناشف نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا کہ مذکورہ ہلاکتوں کے علاوہ اسلامک اسٹیٹ خراساں کے کم از کم 50 مشتبہ اراکین کو طالبان نے پھانسی پر چڑھا دیا یا ان کا سر قلم کر دیا۔ واضح رہے کہ طالبان اسلامک اسٹیٹ خراساں کو اپنا نظریاتی دشمن سمجھتے ہیں۔

اقوام متحدہ نے اگست میں برسراقتدار آنے والے طالبان کے ہاتھوں کم از کم انسانی حقوق کے آٹھ کارکنان اور دو صحافی بھی ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ نے غیر قانونی حراست اور ڈرانے دھمکانے کے انسٹھ واقعات کی بھی دستاویزات اکٹھا کی ہیں۔ نادا الناشف نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کو بتایا، ” افغان ججوں، پراسیکیوٹرز اور وکلاء، خاص طور سے قانونی پیشہ ور خواتین کے لیے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔“

منگل کو جینیوا میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمشنر کی طرف سے جنگ اور جارحیت سے تباہ حال ملک افغانستان میں انسانی بحران کے حوالے سے ایک انتہائی افسردہ کن اور سیاہ تصویر پیش کی گئی۔

نادا الناشف نے کہا،” بہت سے افراد مایوسی کا شکار ہو کر اور اپنے بقا کے لیے خطرناک اور بے تاب اقدامات کرنے پر مجبور ہیں۔ ان اقدامات میں چائلڈ لیبر یا بچوں سے مشقت لینے اور یہاں تک کہ بچوں کو فروخت کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔“

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ موسم سرما کے مہینوں میں 23 ملین سے زیادہ افغان باشندوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہوگا۔ یہ تعداد ملک کی کُل آبادی کے نصف سے زیادہ بنتی ہے۔ عالمی ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ اس سال موسم سرما میں لاکھوں افغان باشندے نقل مکانی یا فاقہ کشی، دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوں گے۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام WFP نے بھی منگل کو کہا کہ اس کے ایک تازہ ترین سروے کی رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ 98 فیصد افغان باشندے مناسب خوراک سے محروم ہیں۔ بھوک کے شکار ان افراد کی شرح میں اگست کے بعد سے 17 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ WFP کی کنٹری ڈائریکٹر میری ایلن مک گروارٹی نے ایک بیان میں کہا، ”افغانستان کو بھوک اور بدحالی کے ایسے برفانی تودے کا سامنا ہے جو میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔“

افغانستان میں غذا کی قلت اور بھوک کی موجودہ ناگفتہ بہ صورتحال کی اہم ترین وجوہات میں گلوبل وارمنگ اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے افغانستان کے لیے فنڈز کو منجمد کرنے کا فیصلہ شامل ہیں۔ نادا الناشف نے متنبہ کرتے ہوئے کہا، ”اس نازک موڑ پر رکن ممالک اقتصادی تباہی کو روکنے کے لیے جو مشکل پالیسی اختیار کرتے ہیں، وہ زندگی اور موت کے بیچ کا فیصلہ ہوتا ہے۔“

طالبان کی طرف سے 1990 کی دہائی میں اپنے پہلے دور اقتدار کے مقابلے میں نرم حکمرانی کا وعدہ کرنے کے باوجود کابل پر اس بار کے طالبان قبضے کے بعد سے خواتین اور لڑکیوں پر لگائی گئی سخت پابندیوں پر ہیومن رائٹس کی کمشنر نے خصوصی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

Share This Article
Leave a Comment