پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کی جانب سے تشدد کے بعد قتل کیے جانے والے سری لنکن شہری پریا نتھا دیاودھنہ کی اہلیہ نے پاکستان کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان سے منصفانہ تحقیقات اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعے کو صوبہ پنجاب میں سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں بطور مینیجر کام کرنے والے پریا نتھا کو ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی دفعات کے تحت ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جبکہ اب تک 100 سے زیادہ افراد زیرِحراست ہیں۔
اس واقعے پر سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجا پکشے نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’انھیں یقین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے اس واقعے میں ملوث تمام ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔‘
سری لنکا کے وزیر اعظم نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’پاکستان میں شدت پسند مشتعل ہجوم کی جانب سے پریا نتھا دیاودھنہ پر بہیمانہ اور جان لیوا حملے پر صدمہ پہنچا۔ متاثرہ شخص کی اہلیہ اور خاندان کے غم میں شریک ہوں۔ سری لنکا اور اس کی عوام کو یقین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے واقعے میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔‘
پریا نتھا دیاودھنہ کی اہلیہ نیروشی دسانیاکے کا کہنا ہے کہ ‘میرے شوہر ایک معصوم انسان تھے۔ میں نے خبروں میں دیکھا کہ انھیں بیرون ملک اتنا کام کرنے کے بعد اب بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے۔’
‘میں نے انٹرنیٹ پر دیکھا کہ یہ قتل اتنا غیر انسانی عمل تھا۔ میں سری لنکا کے صدر اور پاکستان کے صدر و وزیر اعظم سے منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہوں تاکہ میرے شوہر اور ہمارے دو بچوں کو انصاف مل سکے۔’
ان کے بھائی کمالا سری شانتا کمارا نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پریا نتھا دیاودھنہ 2012 سے سیالکوٹ کی اس فیکٹری میں ملازمت کر رہے تھے۔
‘اس فیکٹری کے مالک کے بعد انھوں نے ہی اس کا تمام انتظام سنبھالا ہوا تھا۔ جہاں تک مجھے علم ہے ایک انتہا پسند تنظیم کا پوسٹر اندر لگایا گیا تھا اور اس حادثے کی وجہ تلاش کرنے کے لیے ایک ہڑتال دی گئی تھی۔’
تعلیم کے اعتبار سے پریا نتھا دیاودھنہ ایک انجینیئر تھے۔ ان کے بیٹوں کی عمریں 14 اور نو سال ہیں۔