اقوام متحدہ کے ایک ادارے نے شدید مالی مسائل کے شکار ملک افغانستان کے تنگ دست شہریوں کی مالی مدد کرنا شروع کر دی ہے۔ یہ امدادی سلسلہ پیر انتیس نومبر سے شروع کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام نے افغانستان کے انتہائی غریب عوام کی مالی مدد کا سلسلہ پیر انتیس نومبر سے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت دارالحکومت کابل میں تین ہزار خاندانوں میں نقد رقم تقسیم کی گئی۔
معاشی و معاشرتی مسائل سے دوچار ملک افغانستان میں لوگوں کی تنگ دستی اور مالی بدحالی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ لوگوں کے پاس کھانا خریدنے کی سکت نہیں رہی کیونکہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے مالی بدحالی نے بے شمار خاندانوں کو شدید غربت اور بھوک کی دہلیز پر کھڑا کر دیا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے فی خاندان سات ہزار افغانی (چوہتر ڈالر) دیے گئے ہیں۔ سات ہزار افغانی خاص طور پر اُن خاندانوں کو دیے گئے جو انتہائی شدید حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ ان مجبور خاندانوں کی نشاندہی بھی ورلڈ فوڈ پروگرام کے اہلکاروں نے کی تھی۔
یہ امر اہم ہے کہ بین الاقوامی امدادی ادارے حالیہ ہفتو?ں میں عالمی برادری کی توجہ افغانستان میں جنم لینے والے انسانی المیے کی جانب کئی مرتبہ دلا چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے انتباہی بیانات میں واضح کیا تھا کہ افغانستان کی اڑتیس ملین آبادی کا نصف حصہ گھمبیر معاشی مسائل کا شکار ہو گیا ہے۔ افغان عوام کو درپیش تنگ دستی کے حالات کا احوال بسا اوقات ورلڈ فوڈ پروگرام نے بھی عالمی برادری کے سامنے پیش کیا۔
اس دوران افغانستان پر حکومتی کنٹرول حاصل کرنے والے طالبان کو بعض خدشات کے تناظر میں انٹرنیشنل امداد سے بھی محروم ہونا پڑا ہے۔ افغانستان کے پریشان کن مسائل کے تناظر میں طالبان اور امریکی حکام کے درمیاں اسی ہفتے کے دوران قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دو طرفہ بات چیت کا آغاز ہونے والا ہے۔
افغان خاندانوں میں رقوم کی تقسیم کے عمل میں شریک ایک شخص عظیم اللہ فضل یار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس وقت کابل شہر میں پچاس سے ساٹھ ہزار خاندان مدد کے منتظر ہیں۔ فضل یار کے مطابق ان پیسوں سے یہ خاندان موسم سرما میں ٹھنڈ سے بچنے کے لیے لکڑیاں اور دوسرا سامان خرید سکیں گے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے نقد رقم حاصل کرنے والے ایک خاندان کی بیس سالہ خاتون بسانا نے انتہائی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسے یقین نہیں تھا کہ کبھی وہ بھی مالی مدد حاصل کر سکے گی۔ بسانہ کے خاندان میں دس افراد ہیں۔
امداد حاصل کرنے والوں میں ایک مقامی اسکول میں انگریزی مضمون پڑھانے والے نوجوان سانی اللہ حمیدی بھی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد سے وہ اور ان کے والد روزگار سے محروم ہو چکے ہیں اور یہ امداد ان حالات میں بہت اہم ہے۔ حمیدی کے والد سرکاری ملازم تھے۔