کبھی کسی ادارے کی بات سنی اور نہ کبھی ادارے کا دباؤ لیا، چیف جسٹس

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں انسانی حقوق کے موضوع پر دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے پہلے روز چیف جسٹس کے علاوہ بعض سینیئر وکلا، ججز، صحافی اور سیاسی رہنما سمیت کئی اہم شخصیات موجود تھیں۔

اس کانفرنس میں عدلیہ کی کارگردگی پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد نے اپنے مخصوص انداز میں دھواں دار خطاب میں عدلیہ کی خوب خبر لی۔ علی کرد نے جب اپنی تقریر میں ’ایک جرنیل، ایک جرنیل، ایک جرنیل‘ کہا تو ان کے ساتھ کانفرنس میں دیگر وکلا نے نعرے بازی شروع کر دی۔

پھر سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے مداخلت کی اور شرکا سے کہا کہ وہ کانفرنس کے اختتام پر مخصوص سیاسی سیشن میں نعرے بازی کرسکتے ہیں، ابھی نہیں۔

علی کرد نے بات کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ایک جرنیل 22 کروڑ عوام پر حاوی ہے۔ یا تو اس جرنیل کو نیچے آنا پڑے گا یا لوگوں کو اوپر جانا پڑے گا۔ دو ہی صورتیں ہیں۔۔۔ تب برابری ہو گی۔‘

وکلا رہنما کرد کے مطابق پاکستان کی عدلیہ کو ’رول آف لا انڈیکس‘ میں 126ویں نمبر پر ’جرنیلوں نے پہنچایا ہے۔ اس سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ضرورت ہے جو ستر سال سے آنکھیں دکھا رہا ہے۔‘

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے علی احمد کرد نے کہا کہ ’ملک کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے، بلوچستان میں لوگوں کو ایجنسیاں اٹھا کر لے جاتی ہیں۔‘

مگر پھر چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے خطاب کے دوران کہا کہ وہ علی احمد کرد کے موقف سے متفق نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘کبھی کسی ادارے کی بات سنی اور نہ کبھی ادارے کا دباؤ لیا، مجھے کسی نے نہیں بتایا کہ فیصلہ کیسے لکھوں، کسی کو مجھ سے ایسے بات کرنے کی کوئی جرات نہیں ہوئی۔

’کسی نے میرے کام میں مداخلت نہیں کی، اپنے فیصلے اپنی سمجھ اور آئین و قانون کی سمجھ کے مطابق کیے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘لوگوں کو غلط باتیں نہ بتائیں، انتشار نہ پھیلائیں، اداروں کے اوپر سے لوگوں کا بھروسہ نہ اٹھوائیں۔ پاکستان میں (کسی) انسان کی نہیں قانون کی حکمرانی ہے۔‘

’ہم جس طرح سے کام کر رہے ہیں کرتے رہیں گے، ملک میں آئین و قانون اور جمہوریت کی حمایت کریں گے اور اسی کا پرچار کریں گے، کسی غیر جمہوری سیٹ اپ کو قبول نہیں کریں گے، ہم چھوڑ دیں گے اور ہم نے پہلے بھی چھوڑا۔ آج کے لیے اتنی بات کافی ہے۔‘

جب چیف جسٹس خطاب کرنے آئے تو پنڈال میں موجود چند نوجوانوں نے ملک کے قبائلی علاقے سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی رہائی کے لیے نعرے لگائے تو سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔

اس سے پہلے جب سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس کانفرنس سے خطاب کے لیے آئے تو حاضرین نے تالیاں بجا کر ان کا بھرپور استقبال کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنے خطاب میں کہا کہ بانی پاکستان ’قائد اعظم نے کہا تھا کہ جمہوریت مانگنے سے نہیں ملتی، یہ عوام کا حق ہوتا ہے۔‘

واضح رہے کہ اس سے قبل اپنے خطاب میں علی احمد کرد نے سوال اٹھایا کہ ’ملک میں کون سی عدلیہ موجود ہے؟‘

’کیا اُس عدلیہ کی بات ہو رہی ہے جہاں لوگ صبح آٹھ بجے سے ڈھائی بجے تک انصاف کے لیے جاتے ہیں اور ڈھائی بجے لوگ سینوں پر زخم لے کر گھر کی راہ لیتے ہیں۔‘ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر نے سوال اٹھایا کہ ’کیا یہ عدلیہ انسانی حقوق کی حفاظت اور جمہوری اداروں کی حفاظت کرے گی؟‘

دوسری طرف چیف جسٹس نے علی احمد کرد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’عدالت میں آکر دیکھیں۔ عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘آج تک کسی کی ڈکٹیشن دیکھی، سنی اور نہ ایسا کوئی اثر لیا۔‘

’یہی کردار میرے ججز کا ہے، مجھے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے ڈکٹیشن لی، میری عدالت لوگوں کو انصاف دیتی ہے۔ ہماری عدالت قانون کی پیروی کرتے ہوئے کام کر رہی ہے اور سپریم کورٹ کے ججز محنت کے ساتھ لوگوں کو انصاف فراہم کر رہے ہیں۔‘

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ علی احمد کرد نے کانفرنس کا موضوع ہی تبدیل کر دیا ہے اور اعلان کیا کہ وہ اپنی تقریر کو اسی وجہ سے بدل رہے ہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے علی احمد کرد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کی تقریر سے پتا چلا کہ لوگ اور بار ایسوسی ایشنز ججز کے بارے کیا سوچتی ہیں۔

’کئی عدالتی فیصلے ماضی کا حصہ ہیں جنھیں مٹایا نہیں جا سکتا۔ وہ طے کر چکے ہیں کہ ماضی میں عدلیہ نے جو غلطیاں کیں، انھیں نہیں دہرائیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جو جج آزاد ہو اس کے دباؤ میں آنے کا جواز نہیں۔ ہم سب ایک حلف کے پابند ہیں اور اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہیں۔ میڈیا آزاد ہونا چاہیے، میڈیا آزاد ہو تو عدلیہ آزاد ہوتی ہے۔‘

Share This Article
Leave a Comment