مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک شام میں گزشتہ 9 برس کے دوران ایک لاکھ 16 ہزار شہریوں سمیت 3 لاکھ 84 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔
شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے مطابق مارچ 2011 میں شروع ہونی والی جنگ میں ہلاک ہونے والوں میں بچوں اور خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔
واضح رہے کہ روس، ایران اور لبنانی عسکریت گروپ حزب اللہ کو شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت حاصل ہے جن کا شام کے 80 فیصد حصے پر کنٹرول ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے 2017 میں اعلان کیا تھا کہ یہ تنازع ‘دوسری جنگ عظیم کے بعد انسانوں کے لیے بدترین تباہی ہے’۔
شام میں جنگ نے معیشت کو تباہ کر دیا اور ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد شامی باشندے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق جنگ میں 22 ہزار بچے اور 13 ہزار خواتین بھی جاں بحق ہوئے۔
اس عرصے میں حزب اللہ کے ایک ہزار 697 جنگجوو¿ں اور کم از کم ایک لاکھ 29 ہزار 476 شامی و اتحادی فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق کم از کم 57 ہزار باغی جبکہ اسی طرح کرد کی زیر قیادت شامی ڈیموکریٹک فورسز کے 13 ہزار 624 جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں۔
علاوہ ازیں بتایا گیا کہ داعش کے حامی ہلاک جنگجوو¿ں کی تعداد 67 ہزار 296 ہے۔
رپورٹ کے مطابق 421 ہلاک ہونے والے لوگوں کے بارے میں واضح نہیں کہ ان کا تعلق کس گروپ سے تھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں اقوام متحدہ نے انکشاف کیا تھا کہ دنیا بھر میں جاری جنگی محاذوں پر بچوں پر حملوں اور ہلاکتوں کی تعداد میں 2010 کے مقابلے میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ 10 سالوں کے دوران نت نئے جنگی محاذ کھلے ہیں اور ان محاذوں کے دوران سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہوا ہے جہاں ان ہولناک جنگی محاذوں میں ہزاروں بچے ہلاک اور لاکھوں معذور و بے گھر ہو گئے۔
اقوام متحدہ کے مطابق 2010 سے اب تک جنگوں میں بچوں کی ہلاکتوں، جنسی استحصال، اغوا، بنیادی انسانی حقوق تک رسائی میں مشکلات، اسکول اور ہسپتالوں پر حملے اور بچوں کے بڑی تعداد میں زخمی ہونے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔