افغانستان میں لاکھوں بچے شدید غذائی قلت کا شکارہیں،رپورٹ

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

پہلے سے معاشی طور پر غیر مستحکم افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد صورتحال مزید بدتر ہوگئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق سال کی ابتدا کے مقابلے میں افغانستان میں غذائی قلت کے شکار خاندانوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

کابل میں بچوں کے اندرا گاندھی چلڈرن ہسپتال میں روزانہ ایسے بچے لائے جاتے ہیں جو خوراک کی کمی کی وجہ سے شدید کمزور ہوگئے ہیں۔ انہی میں ڈھائی سال کی گل دانہ بھی ہے جو بظاہر تو بستر پر بیٹھی ہے مگر کمزوری اور نقاہت کی وجہ سے آنکھیں بھی نہیں کھول پا رہی۔ کابل کے اس ہسپتال میں گل دانہ جیسے بہت سے دوسرے بچے بھی موجود ہیں جو افغانستان کی ابتر معاشی صورتحال کی تصویر کشی کر رہے ہیں۔

گل خانہ کے والدجنت گل کے پانچ اور بھی بچے ہیں۔ پہلے بھی کباڑ کے کام سے ان کے پاس کوئی پیسے کی فراوانی تو نہیں تھی مگر وہ ہفتے میں ایک یا دو روز اپنے بچوں کو گوشت کھلا پاتے تھے۔ لیکن اب تین ماہ سے تو سب کچھ ٹھنڈا پڑا ہے۔ اب زیادہ تر یہ خاندان ابلے ہوئے آلوؤں پر گزارا کرتا ہے۔ جنت گل کے مطابق کبھی تو بھوک سے بلکتے بچوں کو وہ صرف قہوے میں روٹی ہی ڈبو کر دے پاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کی ساٹھ فیصد آبادی یا دو کروڑ چالیس لاکھ افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں پانچ سال سے کم عمر بتیس لاکھ بچے سال کے آخر تک غذائی قلت سے متاثر ہونگے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق آنے والی شدید سردیوں کے دنوں میں افغان خاندانوں کی مدد کے لئے ان کے پاس فنڈز ناکافی ہیں۔

گو کہ اس سال غذائی قلت کی ایک وجہ ملک میں خشک سالی بھی ہے مگر یہ اس حقیقت پر غالب آ چکی ہے کہ ایسے خاندانوں کی تعداد،جن کے پاس خوراک خریدنے کے پیسے ہی نہیں ہیں، بڑھتی جا رہی ہے۔

اشرف غنی حکومت میں ہی ملک کی مالی صورتحال دگرگوں تھی۔حکومتی عملے کو تنخواہیں بمشکل مل پا رہی تھیں۔ لیکن اگر پہلے صورتحال بری تھی تو گزشتہ تین ماہ کے دوران یہ بدترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

طالبان حکومت پر بیرون ملک منجمد سرمائے میں سے رقوم نکلوانے پر پابندی ہے جبکہ اشرف غنی دور میں امریکہ اور اتحادیوں کی جانب سے دی جانی والی امداد بھی بند کر گئی ہے۔ ایسی صورت حال میں طالبان حکومت کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور لاکھوں افغان ملازمین کو مہینوں سے تنخواہ نہیں مل پائی ہے۔

بیرونی امداد پر چلنے والے بہت سے ہسپتال اور کلینکس بھی یا تو بند ہوچکے ہیں یا ان کی خدمات محدود کر دی گئی ہیں جس کی وجہ سے لاغری کے شکار بچوں کو ضروری سہولیات بھی نہیں مل پا رہیں۔

گل دانہ کے والد بھی اپنی بچی کو علاج کی غرض سے بغلان صوبے کے علاقے شہر نو سے کابل لے کر آئے ہیں کیونکہ مقامی ہسپتال میں ان کے علاج کے لئے سہولتیں ہی نہیں تھیں۔ ان کے بقول ان کے گاؤں میں اور بھی بہت سے بچے بیمار ہیں مگر وہاں کوئی ڈاکٹر بھی نہیں جو تشخیص ہی کر پائے۔

جہاں صحت کی سہولیات میں واضح کمی آئی ہے وہیں صحت سے متعلق عملہ بھی شدید متاثر ہے۔ اندرا گاندھی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران ہسپتال لائے جانے والے بچوں میں سیبچیس بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکرز، نرسز اور صفائی کرنے والے عملے کو گزشتہ تین ماہ سے تنخواہیں بھی نہیں مل پائی ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment