بلوچستان میں جبری گمشدگیاں پاکستان کا نفسیاتی حربہ ہے، بی این ایم پمفلٹ

0
274

بلوچ نیشنل موومنٹ کی طرف سے جاری کردی پمفلٹ ”جبری گمشدگیاں: پاکستان کا نفسیاتی حربہ“ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج و خفیہ اداروں نے 6 فروری 1976 سے پاکستان نے اسد اللہ مینگل اور احمد شاہ کرد کی جبری گمشدگی سے بلوچستان میں جس جرم کا سلسلہ شروع کیا تھا 45 سال گزرنے کے بعد اس میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ پمفلٹ اتوار کے روز بلوچ نیشنل موومنٹ نے بلوچستان میں پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کے ہاتھوں عام لوگوں بالخصوص طلبا ء کی جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری کیا۔

پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی سے سماج کے تمام طبقات یکساں متاثر ہیں، لیکن ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت ہمارے نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا جارہا ہے تاکہ انہیں خوف اور نفسیاتی ہیجان میں مبتلا کیا جائے۔ پاکستانی نوآبادکار چاہتا ہے کہ طلبا نہ اطمینان سے تعلیم حاصل کرسکیں اور نہ ہی سماج میں کوئی مثبت تعمیری کردار ادا کرسکیں۔

اس وقت ہمارے پارٹی رہنماؤں سمیت طلبا، وکلا، ڈاکٹر، اساتذہ و دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں بلوچ پاکستانی زندانوں میں قید ہیں۔? یقیناً جبری گمشدگان کی سب سے بڑی اکثریت طلبا پر مشتمل ہے۔

جون 2021 کو خضدار یونیورسٹی کے طلبا شاہ میر زہری اور مرتضی زہری کو جبراً گمشدہ کیا گیا۔ چند روز قبل بلوچستان یونیورسٹی کے طلبا سہیل بلوچ اور صفی بلوچ کو یونیورسٹی ہاسٹل سے جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا۔

بلوچستان کے تمام تعلیمی ادارے بالخصوص بلوچستان یونیورسٹی اور خضدار یونیورسٹی تعلیمی اداروں کے بجائے فوجی کیمپ کا منظر پیش کرتے ہیں، جہاں قدم قدم پر ایک فوجی بندوق لئے کھڑا ہے۔ ہر در و دیوار، کمرہ، ہال، لائبریری یہاں تک واش روم میں بھی کیمرے نصب ہیں۔ان کیمروں کی موجودگی میں، لوگوں کی آنکھوں کے سامنے نوجوانوں کو اٹھا کر غائب کیا جارہا ہے۔ سالوں پہلے پاکستان کی نوآبادیاتی حکومت نے دنیا کو بے وقوف بنانے کے لئے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ایک کمیشن بنائی لیکن پاکستانی میڈیا، عدلیہ اور سول سوسائٹی کی طرح یہ کمیشن بھی بلوچ نوجوانوں کی بازیابی کے بجائے نہ صرف پاکستان کے جنگی جرائم کی پردہ پوشی کرنے میں مصروف رہی بلکہ شریک جرم کا کردار بھی کرتی رہی ہے۔پاکستانی عدلیہ کا یہ حال ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو جبری گمشدہ کرنے کے واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج تک عدالتوں میں پیش کیے گئے لیکن اس کے باجود اس نے کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ خاموشی اختیار کرکے یہ ثابت کیا کہ بلوچستان میں فوج اور خفیہ اداروں کو انسانی حقوق کی پامالی اور جنگی جرائم کے لیے مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔

جبری گمشدگی ایک کرب ناک عمل ہے۔ اس کرب ناک صورتحال سے نبرد آزما بلوچ خواتین گزشتہ دو عشروں سے سڑکوں پر اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان خواتین کی نوآبادیاتی نظام اور اس سے منسلک جبر و استحصال کے خلاف بے مثال جدوجہد انسانی تاریخ کے ناقابلِ فراموش ابواب میں سے ایک باب ہے۔ یقینی طور پر ہماری ماں بہنوں کی استقامت اور پرعزم جدوجہد کے اثرات صرف بلوچ قوم تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ ایک دن پوری انسانیت اس جدوجہد پر فخر کرے گی۔۔

پاکستانی نوآبادکار اچھی طرح واقف ہے کہ جبری گمشدگی ایک خوفناک نفسیاتی ہتھیار ہے۔ اس لیے وہ اس کے استعمال میں شدت لا رہا ہے تاکہ بلوچ قوم کے حوصلے کو شکست دی جائے۔وہ نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنا کر اپنی قبضہ گیریت کو دوام دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تاکہ ہمارے وسائل کی لوٹ مار میں اسے کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پاکستان ہمیں صفحہِ ہستی سے مٹانے کی پوری پوری کوشش کر رہا ہے۔

جبری گمشدگیاں انسانی حقوق کی بھیانک ترین خلاف ورزی ہے۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر قوانین بھی موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 18 دسمبر 1992ء کو پروٹیکشن آف آل پرسنز فرام اینفورسڈ ڈس اپیئرنس نامی ڈیکلیریشن پاس کیا تھا۔ اس ڈیکلیریشن کے مطابق اینفورسڈ ڈس اپیئرنس اس وقت ہوتی ہے جب ”کسی شخص کو بلا اطلاع گرفتار کیا جائے،محبوس رکھا جائے، اسے طاقت کے بل پر اغوا کیا جائے، سرکاری اہلکار یا کوئی منظم جرائم پیشہ گروہ یا کرایے کے افراد ریاستی اداروں کے ایما پر کسی شخص کی آزادی کو سلب کرکے اسے قانونی تحفظ کے دائرے سے باہر نکال دیں“۔

مقبوضہ بلوچستان میں روز افزوں بڑھتی ہوئی جبری گمشدگیاں عالمی اداروں کیلئے کئی سوالات جنم دے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی کے خلاف بلوچ عوام کو یکجا ہو کر آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے خاموشی اختیار کی یا ہماری سیاسی قوت منتشر رہی تو ریاست پاکستان اس گھناؤنے عمل کو مزید بڑھاوا دے گی۔ اس لئے جبری گمشدگی کے خلاف بھرپور احتجاج کرکے میدان عمل کا رخ کریں۔ ہمیں اپنی قومی بقا اور ساحل اور وسائل کے تحفظ کے لئے پاکستان سے نجات حاصل کرنا ہوگا۔ اس کے لئے قوم کے ہر فرد کو یکسو ہوکر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here