کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے ہاتھوں لاپتہ نوید بلوچ کیبھائی اور لواحقین نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کیمپ کوئٹہ میں ماما قدیر بلوچ دیگر کی موجودگی میں پریس کانفرسن کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ آپ سب کو پتہ ہے کہ بلوچستان میں عرصہ دراز سے اغواکاری، مسنگ پرسنز اور جعلی مقابلے میں مارنے کے واقعات معمول بن چکا ہے۔ اسی طرح کا واقعہ گزشتہ شب ہمارے ساتھ بھی پیش آیا۔ کل بمورخہ 11 اکتوبر 2021 بوقت رات 09:20 بجے کے قریب سیٹلائیٹ ٹاون بلال کالونی میں ہمارے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی، جب گھر میں موجود ایک فرد نے دروازہ کھولا، تو بغیر کسی تعارف کے سی ٹی ڈی CTD کے ایک سوال کے ساتھ سول کپڑوں میں ملبوس چند اہلکاروں نے دھکے دے کر دروازہ کھولنے والے فرد کو اندر کی طرف دھکیلا۔ اور سکیورٹی اہلکار گھر کے اندر داخل ہو کر نہ صرف یہ کہ توڑ پھوڑ کیا بلکہ گھر میں موجود تمام افراد بالخصوص خواتین کو شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دھمکی آمیز رویہ اپنایا۔ بغیر کسی قانونی چارہ جوئی کے ہمارے گھر سے نوید بلوچ جو کہ میرا بھائی ہے کو اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے۔ گھر میں موجود خواتین نے مزاحمت کی تو انہیں ایک بار پھر تشدد کا نشانہ بنایا جس سے گھر میں موجود خواتین کی حالت غیر ہوگئی۔
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ بلوچستان کے اندر ریاستی اداروں کی جانب سے ماورا عدالت اغواء کاری اور قتل عام کا ایک تسلسل ہے۔ جس سے بلوچستان میں ریاستی ادارے خوف و ہراس کو برقرار رکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اس کے علاوہ بلوچستان کے اندر اب اس طرح کے واقعات ایک نئی سمت لے رہے ہیں۔ جس کا مطلب اجتماعی سزاؤں کو فروغ دینا ہے۔ گھر کے اندر اگر کوئی خاتون سیاست میں دلچسپی لے رہی ہے تو اس کو خاموش کرانے کے لیے اس طرح کی غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر انسانی رویہ اپنایا جا رہا ہے۔
ہم آپ لوگوں کی توسط سے ریاستی اداروں اور حکمرانوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر نوید بلوچ نے کوئی جرم کیا ہے تو ان کے خلاف متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر FIR درج کے کرکے مزید قانونی چارہ جوئی کے لیے آگے لے کر جاتا۔ بلکہ یہ سب کچھ اس کے الٹ میں ہو رہا ہے۔ اس ملک میں اغواء نما گرفتاریوں میں ملوث اداروں کے علاوہ کورٹ، کچہری اور تھانے بھی ہیں جن کا کام یہی ہے کہ وہ آئینِ پاکستان کے تحت کسی بھی مشتبہ ملزم کے خلاف تمام تر قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے عدالت کے کٹہرے سے سزا دلوا کر قید کریں۔
جب کہ اس طرح کی اغوانما گرفتاری نہ صرف اس اغوا شدہ فرد یا اس کے خاندان کے لیے اذیت ناک ہوتی ہے بلکہ تمام سیاسی کارکنان کے لئے بھی باعثِ تشویش ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ سکیورٹی اداروں کی جانب سے نوید بلوچ کو اغوا کرتے وقت یہ دھمکیاں دے رہے تھے کہ اگر آپ لوگ خاموش نہیں رہے تو آپ لوگوں کو بھی اٹھایا جائے گا۔ ان دھمکیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم میڈیا کے ذریعے اپنے خدشات سے تمام لوگوں کو بتانا چاہ رہے ہیں کہ اگر ہمارے فیملی کے کسی بھی ممبر کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا یا ان پر کسی بھی قسم کی کوئی آنچ آئی تو اس کی ذمہ دار یہی ادارے ہوں گے جنہوں نے نوید بلوچ کو اغوا کیا۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ نوید بلوچ نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کریں اور ان کو جو بھی سزا دینی ہے ہمیں منظور ہو گی۔
اس کے علاوہ ہم نوید بلوچ کی عدم بازیابی کی صورت میں ہر اس قانونی فورم کا استعمال کر سکتے ہیں جس کا ہمیں آئینِ پاکستان نے حق دیا ہے جس میں احتجاج اور عدالت عالیہ سے رجوع سمیت دیگر قانونی راستے شامل ہیں۔
ہم بلوچستان بھر کے تمام سیاسی کارکنان، نوجوانوں، طلبہ اور تمام سیاسی تنظیموں و ٹریڈ یونینز سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ نوید بلوچ سمیت تمام پُر امن سیاسی کارکنان کی باحفاظت بازیابی کے لیے آواز اٹھائیں۔