جنرل فیض حمید نے آئی ایس آئی کو غلط استعمال کرکے ن لیگ حکومت کوگرایا،مریم نواز

0
190

پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ فوج اور ایجنسیوں کو تنازعات اور شک و شبہات سے بالاتر ہونا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ کسی ایک فرد کی وجہ سے ادارے کا نام نہیں لینا چاہیے لیکن جب فرد واحد ادارے کے پیچھے چھپتا ہے تو کیا وہ ادارے کے وقار میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

مریم نواز اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے لیے متفرق درخواستوں کی سماعت کے بعد میڈیا سے بات کر رہی تھیں۔

بدھ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ ’جسٹس شوکت عزیز صدیقی پہلے ہی یہ بتا چکے ہیں کہ اس وقت جنرل فیض حمید صاحب نے ان سے کہا تھا کہ اگر تم (شوکت عزیز) نے انھیں ضمانت دی تو میری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’جنرل فیض حمید نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی ایسا بینچ نہ بنے جو 2018 کے الیکشن سے پہلے نواز شریف صاحب اور مریم نواز کو ضمانت دے۔ کیونکہ اگر ضمانت دے دی اور انتخابات سے پہلے مریم نواز اور نواز شریف باہر آ گئے تو میری تو دو سال کی محنت خراب ہو جائے گی۔‘

مریم نواز نے مزید کہا کہ ’وہ دو سال کی محنت یہ تھی کہ ایک منتخب حکومت کو کمزور کیا جائے، اس کو گرایا جائے، ایک منتخب وزیرِ اعظم کو پانامہ پانامہ کر کے ایک جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیا جائے، وہ جے آئی ٹی جسے ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر چلاتا ہے اور اس کے بعد آپ اسے پانامہ کی بجائے اقامہ پر نکالتے ہیں۔‘

مریم نواز نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’آج کہاں ہے وہ جے آئی ٹی جسے ایک بریگیڈیئر چلاتا تھا۔ میں یہ بتا سکتی ہوں کہ جب میں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئی، تو مجھ سے تمام سوال اس بریگیڈیئر نے کیے، نیب کے نمائندے سمیت تمام افراد ڈمی بن کر بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ جے آئی ٹی کو ڈرائیو بریگیڈیئر نے کیا، پیچھے جنرل فیض حمید تھے۔‘

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے فی الحال مریم نواز کے ان الزامات پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’آپ الیکشن چوری کرتے ہیں، جوڑ توڑ کرتے ہیں، مسلم لیگ ن کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ ’میں سمجھتی ہوں کے پاکستان کا میڈیا دباؤ کی وجہ سے میری باتیں نہیں چلا سکتا، لیکن یہ بھی کہا گیا کہ مریم نے کسی ادارے پر حملہ کیا، میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ کسی فردِ واحد کی حرکتوں کو ادارے کا نام نہیں دینا چاہیے، ادارہ ملک کا ہے کسی فردِ واحد کا نہیں ہے۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’اگر جنرل فیض حمید کسی جج کے گھر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں بینچ بناؤ، فلاں نہ بناؤ، تو کیا وہ ادارے کے وقار میں اضافہ کر رہا ہوتا ہے؟‘

’جب آپ اپنے آئینی قانونی اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں، اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے اقدامات کرتے ہیں، اور پھر اس کی وجہ سے جب ادارے پر انگلی اٹھائی جاتی ہے تو کیا آپ اس کے وقار میں اضافہ کرتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’افواج پاکستان ملک کی طاقت ہے، ہماری طاقت ہے، قوم کی طاقت ہے لیکن جب اس طاقت کو کوئی فردِ واحد استعمال کرتا ہے تو وہ ادارے کی کون سی خدمت کرتا ہے۔

’آج کہاں ہے وہ جے آئی ٹی، اور وہ درخواست گزار۔۔۔ اس کو قوم ڈھونڈ رہی ہے، آج کہاں ہیں وہ جسٹس کھوسہ جنھوں نے کہا تھا کہ لائیں پٹیشن ہم سنتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میری درخواست سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان نے امپائر کو ساتھ ملا کر منتخب حکومت کو گرایا، اس کے خلاف سازش کی، اور اس امپائر کا نام ہے جنرل فیض حمید۔‘

مریم نواز نے دائر کی گئی متفرق درخواست میں موقف اختیار کیا کہ احتساب عدالت نے چھ جولائی 2017 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنائی، جو پاکستان کی تاریخ میں سیاسی انجینئرنگ اور قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کی کلاسک مثال ہے۔

درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بار سے خطاب کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’فاضل سابق جج نے کہا کہ چیف جسٹس کو اپروچ کیا گیا کہ ہمیں الیکشن تک نواز شریف اور ان کی بیٹی کو باہر نہیں آنے دینا۔ چیف جسٹس نے آئی ایس آئی والوں کو کہا کہ جس بنچ سے آپ مطمئن ہیں وہ بنچ بنا دیتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کی مرکزی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) عدالتی امور میں مداخلت کر رہی ہے۔

مریم نواز کا مؤقف ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی نے بتایا کہ ڈی جی آئی ایس آئی نے ان سے 29 جون 2018 کو ملاقات کی۔

مریم نواز کے مطابق جسٹس شوکت صدیقی کے اس بیان سے عدالتی فیصلے کے غیر جانبدارانہ ہونے پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی کہ ان پر نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بے حد دباؤ تھا۔

مریم نواز نے اپنی درخواست میں مزید کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس کیس میں تفتیش اور استغاثہ کی نگرانی کی، سپریم کورٹ نے ایک طرح سے اس کیس میں پورا عمل ہی کنٹرول کیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا کسی کیس میں نہیں کیا گیا۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا آئین میں کردار نہ تفتیش کار کا ہے نہ ہی پراسیکیوٹر کا اور اثاثوں کے الزام میں تین الگ ریفرنس دائر کرنا بھی قانون کی خلاف ورزی تھی۔

مریم نواز نے یہ بھی کہا ہے کہ نیب کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ شفاف طور پر کارروائی کرے، ٹرائل کی ساری کارروائی اور ریفرنس فائل کرنے کے احکامات بھی دباؤ کا نتیجہ ہو سکتے ہیں لہذا عدالت قانون کی ان سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لے اور انھیں تمام الزامات سے بری اور سزا کالعدم قرار دے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here