Home اداریہ جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں قتل عام کوروکنا ناگزیر

جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں قتل عام کوروکنا ناگزیر

0
301

بلوچستان میں جہاں جبری گمشدگی کے واقعات میں ایکدم سے تیزی آئی ہے وہیں لاپتہ افراد کی جعلی مقابلوں میں قتل عام کے ایک نئے ریاستی منصوبے کاجنم ہوا ہے جو تشویشناک ہے۔

گذشتہ ایک مہینے سے انکاؤنٹر ٹیررڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی جانب سے درجنوں لاپتہ افراد کو مختلف جعلی مقابلوں میں مارا گیا ہے لیکن اس نئے حراستی قتل عام پر بلوچستان کی سیاسی،سماجی وانسانی حقوق حلقوں کی جانب سے موثر آواز نہ اٹھانے پر ہزاروں کی تعداد میں ریاستی سیلوں میں بند لاپتہ افراد کی سانسیں سلب کرنے کے واقعات میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

بلوچستان میں جبری گمشدگی اور نہتے افرادکا ٹارگٹ کلنگ ایک انسانی بحران کا روپ دھار چکاہے۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتاکہ فورسزکے ہاتھوں کوئی لاپتہ نہ ہوجائے یاکسی کا خون نہ بہے۔ریاستی اداروں کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگیں خلاف ورزیوں کویہاں کی سیاسی و سماجی حلقوں سمیت انسانی حقوق کے ادارے طشت ازبام کرنے میں ناکام ہیں۔ لاپتہ افراد لواحقین کی تنظیم”وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز“ گذشتہ ایک دہائی سے تسلسل کے ساتھ احتجاج کر رہی ہے لیکن اسے کسی قسم کی بھی سیاسی مددحاصل نہیں ہے۔ البتہ بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) نے جب پی ٹی آئی کو وفاق میں حکومت بنانے کیلئے لاپتہ افراد بازیابی کی شرط پر سپورٹ کرنے کی حامی بھری تواس وقت لاپتہ افراد معاملے کو ایک موثر سیاسی کندھا ملا اور بعض افراد رہا بھی ہوگئے لیکن یہ سلسلہ طوالت نہ پکڑ سکااور لاپتہ افراد معاملہ پھرسے سیاسی بازو سے محروم ہوگیا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، بلوچ یکجہتی کمیٹی اور دوسرے تنظیم انفرادی طور پر اپنی بساط کے مطابق کے لاپتہ کی بازیابی کیلئے کوششیں کر رہے ہیں لیکن سیاسی پشت پناہی نہ ملنے کی وجہ سے ان کی جہدو جہد طول اور نتائج کم نظرآرہے ہیں جو سیاسی و انسانی حقوق اداروں کیلئے سوالیہ نشان ہے۔

مبصرین کے مطابق بلوچستان میں ریاستی اداروں کی جانب سے کھلم کھلا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اور اس میں ہر گزرتے دن میں اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ بلوچستان کی پارلیمانی و غیر پارلیمانی سیاسی جماعتیں اس معاملے پر سنجیدہ نہیں بلکہ اسے ایک سطحی معاملے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔اسی لئے ریاستی اداروں کو شے مل رہی ہے اوریہ معاملہ اب ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

یہ بات سب کو علم ہے کہ ریاستی اداروں کے جبر و دہشت سے پورا بلوچستان ایک خوف میں مبتلا ہے۔آنکھیں، کان اور منہ بندہیں،کوئی کچھ بولنے کی جسارت نہیں کرتا لیکن اس جبر ودہشت کے باوجود وی بی ایم پی،بی وائی سی سمیت انسانی حقوق کے کچھ مقامی تنظیموں کی آوازیں اب بھی بلند ہیں جو قابل فخرہے۔

افغانستان میں طالبان کی دہشت کے خوف سے لاکھوں لوگوں نے ملک چھوڑ دیا لیکن کچھ لوگ اب بھی ہیں جو طالبان کی دہشت کیخلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں کیونکہ انہیں اپنی بقاکا بحران درپیش ہے اور وہ اب طالبان کی بندوقوں سے خوفزدہ نہیں ہیں۔اسی طرح بلوچستان میں بھی لاپتہ افراد کامعاملہ ہماری بقا کامعاملہ ہے۔اگر ہم آج ریاستی اداروں کی خوف سے چھپ سادھ لیکر بیٹھ جائیں تو لاپتہ افراد اورجعلی مقابلوں میں ہلاکتوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جائے گی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کی پارلیمانی و غیر پارلیمانی سیاسی جماعتیں لاپتہ افراد اور حراستی قتل کے ریاستی منصوبے پر اپنا ایک باقاعدہ پالیسی یا حکمت عملی بنائیں اور اس پر موثر طریقے سے عملدرآمد کریں۔غیر پارلیمانی جاعتیں بلوچستان سمیت دنیا بھر میں لاپتہ افراد اور جعلی مقابلوں میں بلوچوں کے قتل عام پر احتجاجی مظاہروں، ریلی،پمفلٹنگ،اشتہارات کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع کریں۔

پارلیمانی جماعتیں ہر اسمبلی و سینیٹ ایوان میں اس مدعے کو اٹھائے جس سے پاکستان سمیت دنیا میں یہ معاملہ اجاگر ہوجائے گا۔ بین الاقوامی برادری اورعالمی انسانی حقوق اداروں کو بلوچستان میں ریاستی اداروں کی بربریت، جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے کارناموں کا علم ہوگا اور وہ اس پر اپنا ردعمل دینگے جس سے پاکستان میں دباؤ بڑھ جائے گا اوربلوچستان میں انسانی حقوق خلاف ورزیوں میں کمی واقع ہوجائے گی۔

بلوچستان میں جبری گمشدگی کے واقعات کو روکنے کا واحد حل سیاسی سپورٹ ہے اگرلاپتہ افراد معاملے کو روکنا ہے تو تمام سیاسی جماعتیں آل پارٹیز کی بنیاد پر جبری گمشدگیوں کیخلاف ایک مشت ہوکر اسمبلی ایوانوں اور پبلک مقامات پرلاپتہ افراد لواحقین کے ساتھ موثر آواز اٹھائیں، نہیں تو لاپتہ افراد معاملہ مذید سنگین تر اور جعلی مقابلوں میں ان کی قتل عام میں اضافہ ہوجائے گا۔یہ معاملہ انتہائی سنگین ہے اور اگر اس پر ہماری باقاعدہ سیاسی حکمت عملی نہ بن گئی تو ریاست کی خوف عوام پر مزیدغالب آجائے گی اورہماری خاموشی سب کچھ بہاکر لے جائے گا۔اسی لئے ضروری ہے کہ ہم خاموشی کا روزہ توڑ دیں اور پورے سیاسی سپورٹ کے ساتھ لاپتہ افراد لواحقین کے ساتھ مل کر ان کے شانہ بشانہ لاپتہ افردکی بازیابی اور جعلی مقابلوں میں قتل عام کے ریاستی نسل کش پالیسی کے سامنے دیوار بن جائیں کیونکہ یہاں بات سیاست کی نہیں بلکہ بلوچ فرندان کو بچانے کی ہے،اسی لئے سیاسی اشتراک و سپورٹ جبری گمشدگی معاملے کااختتام ہے۔

٭٭٭

NO COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here