بلوچستان اسمبلی اراکین کا بدامنی و غارت گیری پر تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ

0
217

بلوچستان اسمبلی کے حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے پنجگور سمیت بلوچستان بھر میں بد امنی، جرائم اور قتل و غارت گیری کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واقعات میں ملوث عناصر کے تعین اور انہیں قانون کی گرفت میں لانے کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اور تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پیر کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں گزشتہ اجلاس میں باضابطہ شدہ تحریک التواء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ پنجگور میں خواتین بچے اور بوڑھے سڑکوں پر سراپااحتجا ج ہیں اور گڑگڑارہے ہیں شہری خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں یہ تب ہوتا ہے جب لوگوں کا حکومتی اداروں سے اعتمادختم ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ پنجگور بدامنی کا شکار ہے پنجگور میں سازش کے تحت امن وامان کو خراب کرنے کے لئے تعلیم یافتہ اور باشعور لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے وزیر اعلیٰ، وزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ سمیت کسی نے پنجگور جا کر اقدامات نہیں اٹھائے۔ صوبائی حکومت امن وامان کے قیام میں ناکام ہوچکی ہے بدامنی کے سب سے زیادہ اثرات مکران اور رخشان ڈویژن پر پڑے ہیں انہوں نے کہا کہ صوبے میں ستر سے اسی ارب روپے امن وامان پر خرچ کئے جارہے ہیں اس کے باوجود رواں سال ساٹھ افراد کے قتل کے واقعات رونما ہوئے ہیں 245افراد اقدام قتل کے واقعات،160اغواء برائے تاوان، 50گاڑیوں کے چھیننے،362موٹرسائیکل چوری کے واقعات ہوئے ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں چھ مہینے کے دوران بدامنی کے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں ان کی رپورٹ ایوان میں جمع کرکے بدامنی کی وجوہات سے آگاہ کیا جائے اور بدامنی کے واقعات میں ملوث عناصر کو کیفر کرادر تک پہنچایا جائے۔ جے یوآئی کے میر زابد علی ریکی نے کہا کہ پنجگور سمیت رخشان ڈویژن واشک ماشکیل خاران میں بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ تین سال کے دوران بلوچستان حکومت کی کوئی کارکردگی نہیں رہی زیارت میں بارہ دن تک لاشیں رکھ کر احتجاج کیا گیا مگر حکومت بات سننے کو تیار نہیں ہے۔بی این پی کی رکن شکیلہ نوید دہوار نے پنجگور میں قتل ہونے والے جلیل سنجرانی کے پنجگور میں بدامنی سے متعلق مختلف ٹویٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جلیل سنجرانی کو پتہ نہیں تھا کہ ظالم اس کی بھی دنیا اجاڑ دیں گے انہوں نے کہا کہ جلیل سنجرانی کو تنہا قتل نہیں کیا اس کی، بیوی کینسر کے مرض میں مبتلا اس کی بہن اور بچوں کا قتل اور ان کے نصیب میں یتیمی لکھ دی گئی ہے انہوں نے کہا کہ دس لاکھ یاایک کروڑ جلیل سنجرانی کا ازالہ نہیں ہمیں اس کے بچوں کی کفالت کے لئے مستقل انتظام کرنا چاہئے۔

کٹھ پتلی وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے کہا کہ بلوچستان بالخصوص پنجگور میں بدامنی کے واقعات باعث تشویش اور لمحہ فکریہ ہیں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ان کا سدباب کرے جلیل سنجرانی میرے قریبی رشتہ دار اور سیاسی ساتھی تھے وزیراعلیٰ، سیکورٹی فورسز کے سربراہان سے پنجگور میں امن وامان کے معاملے پر بات کی ہے اور گزارش کی ہے کہ جنہوں نے پینتیس جانیں لی ہیں انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ اسلام آباد سے واپس آئیں تو ان سے گزارش کروں گا کہ وہ سیریل کلنگ کے معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیں جو واقعات کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ سزاء اورجزاء کا عمل بھی یقینی بنایاجائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پولیس کو جدید خطوط پر استوار کیا ہے ڈیٹا سینٹر کے قیام سے جرائم ہونے سے پہلے روکنے کی کاوشیں بھی جاری ہیں لیویز کے استعداد کار کو بھی بڑھایاجارہا ہے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ پنجگور میں قتل وغارت گری کے واقعات جنگل کے قانو ن کے مترادف ہیں چند ماہ میں 38افراد کو قتل کیا گیا 70ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود حکومت اس قدر بے حس ہے کہ اسے پروا تک نہیں کہ ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے پنجگور سمیت صوبے میں ہونے والے بدامنی کے واقعات پر اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن بنایا جائے انہوں نے کہا کہ عثمان خان کاکڑ، ملک عبیداللہ کاسی، مچھ، مانگی ڈیم، پنجگور میں بدامنی کے واقعات میں ملوث عناصر کا تعین ہونا چاہئے چمن اور مکران میں منشیات فروشی سے نسل تباہ ہورہی ہے وزیراعلیٰ عوام کو تحفظ نہیں دے سکتے تو استعفے دے دیں حکومت بتادے کہ وہ عوام کے تحفظ میں ناکام ہے اور عوام خود اپنی حفاظت کرنے کا بیڑا اٹھالیں۔ بدامنی کے واقعات پر فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنایا جائے۔

کٹھ پتلی وزیر میر اسد اللہ بلو چ نے کہا کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کا تحفظ کرے اگر ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرے گی تو لوگ سڑکوں پر نکلیں گے ہمیں عوام کی آواز کو سننا ہوگا۔ پنجگور میں سینکڑوں خواتین بدامنی کے خلاف باہر نکلیں ضلع میں سات سو پولیس اور 45سو ایف سی اہلکار ہیں آئی جی پولیس خود چھ چھ کروڑ کی بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومتے ہیں یہ انہیں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے دی گئی ہیں تاکہ وہ عوام کا تحفظ کریں۔ میرے لئے ایک وزارت پنجگور کے عوام سے زیادہ نہیں ہے۔4ماہ قبل جب پنجگور میں میری مشاورت کے بغیر ڈی پی او کو تعینات کیا گیا تو کہا گیا کہ یہ اچھے افسر ہیں ایک ہفتے میں صورتحال بہتر ہوگی آج چار ماہ ہوگئے ہیں ضلع میں بدامنی نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں میرا کام قانون سازی کرنا ہے۔ امن وامان قائم کرنا قاتلوں کو گرفتار کرنا ڈی پی او کاکام ہے 22ہزار ووٹ لے کر آیا ہوں لیکن میرے خلاف بھی سازشیں ہورہی ہیں اگر عوام کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو پارلیمانی سیاست ہی چھوڑ دوں گا اور اگر میں نے پارلیمانی سیاست چھوڑی تو ارباب اختیار کے لئے مسئلہ ہوگا۔ کیا آئی جی اتنے طاقتور ہیں کہ وہ عوامی نمائندوں کو سننے کو تیار نہیں آج آئی جی اور چیف سیکرٹری کو پنجگور میں ہونا چاہئے تھا اور وہ لوگوں کو سنتے مگر ایسا نہیں ہوا ہم آئین وقانو ن کو مانتے ہیں عوام کے ٹیکس کے پیسے ان کی حفاظت کے لئے استعمال ہونے چاہئیں انہوں نے کہا کہ پنجگور، تربت، نوشکی، گوادر، مانگی سمیت صوبہ بھر حالات خراب ہیں کیا یہاں پر دانستہ طو رپر انتشار پیدا کیا جارہا ہے۔

نقاب پوش موٹر سائیکل سوار اتنے طاقتور ہوگئے ہیں کہ وہ لوگوں کو قتل کریں اور انہیں نامعلوم کیا جائے ہمیں نامعلوم معلوم ہیں کیا آئی جی اور چیف سیکرٹری کے بیٹے کے ساتھ پنجگور کے ساتھ واقعات ہوتے تو وہ خاموش رہتے انہوں نے کہا کہ عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لئے آخری سانس تک بولیں گے کیا یہ افغانستان جیسا ماحول پیدا کیا جارہا ہے یہ کون سی طاقت ہے جو عوام ہی کے خلاف استعمال ہوتی ہے سیاسی جماعتوں کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں اورکام کرنے والوں کو راستے سے ہٹا کر ٹھپہ ماروں کو آگے لانے کی کوشش ہورہی ہے سیاسی جماعتوں کو متحد ہونا ہوگا کچھ لوگوں کو پنجگور کی ترقی ہضم نہیں ہورہی جوحالات خراب کرنا چاہتے ہیں تین سال کے معصوم بچے کو قتل کرنے والوں کو کون شہہ دے رہا ہے انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی بنا کر آئی جی سے پوچھا جائے کہ بدامنی کون پھیلارہا ہے لوگ مررہا ہے اور آئی جی کہہ رہا ہے کہ پنجگور کے حالات ٹھیک ہیں صوبہ کو موجودہ آئی جی جیسے نام نہاد دبنگ نہیں بلکہ شریف اور عزت دار باوقار لوگوں کی ضرورت ہے۔

جب سے یہ موجودہ آئی جی آئے ہیں صوبے کے حالات خراب ہیں وہ جہاں سے آئے ہیں انہیں وہیں رکھا جائے انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ سے انصاف مانگتا ہوں اگر ہم عوام کی عدالت میں بولیں گے تو بہت کچھ کہیں گے۔ آج لوگ ایوان سے اس لئے نکل گئے کہ شاید انہیں ایک فون آیا ہوگا کہ وہ بیٹھے رہے تو ان کی ایم پی اے شپ چلی جائے دنیا بھر میں جرائم ہوتے ہیں لیکن قاتلوں کو گرفتار کرکے سزا دی جاتی ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ ضمیر کی بات کی اور کرتے رہیں گے۔بعد ازاں ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل نے رولنگ دی کہ صوبائی وزیر میر ظہوری بلیدی کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وزیراعلیٰ سے پنجگور کے معاملے پر کمیشن بنانے کی بات کی جائے گی لہٰذا تحریک التواء نمٹادی جاتی ہے جس کے بعد اسمبلی کا اجلاس سولہ ستمبر کی شام چار بجے تک ملتوی کردیاگیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here