آٹھ سالہ بچی نے بھارتی وزیر اعظم سے ملنے والا اعزاز ٹھکرادی

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

بھارت میںآٹھ سالہ بچی نے وزیر اعظم نریندرہ مودی سے ملنے والا اعزاز ٹھکرادی ہے۔

پیارے نریندر مودی جی۔ اگر آپ میری آواز نہیں سنیں گے تو پلیز مجھے سلیبریٹ مت کیجیے۔ متاثر کن خواتین کے بارے میں آپ کے قدم SheInspiresUs # کے تحت مجھے ان خواتین میں شامل کرنے کا شکریہ۔ کئی بار غور کرنے کے بعد میں نے یہ اعزاز ٹھکرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیرا عظم نریندر مودی کی جانب سے دیے جانے والے اس اعزاز کو ٹھکرانے والی آٹھ سالہ بچی کا نام لسی پریا کنجم ہے۔

لسی پریا کنجم کا تعلق انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور سے ہے۔ وہ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف آواز بلند کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔

انہیں سنہ 2019 میں بچوں کے عالمی امن کے انعام نے نوازا گیا تھا۔

انڈین حکومت کی جانب سے 8 مارچ یعنی انٹرنیشنل ویمینس ڈے کے موقع پر ایسی خواتین کا ذکر کیا جا رہا ہے جو کو مختلف شعبوں میں غیر معمولی کردار ادا کر رہی ہیں۔

اسی سلسلے میں @mygovindiaٹوئٹر ہینڈل سے ٹوئیٹ کیا گیا کہ ’لسی پریا کنجم ایک ماحولیاتی امور کی کارکن ہیں۔ سال 2019 میں انہیں ڈاکٹر اے پی جے عبد ال کلام چلڈرین ایوارڈ، عالمی امن کا انعام اور انڈیا کے امن کے انعام سے نوازا گیا۔ کیا آپ ان کے جیسی کسی کو جانتی ہیں؟ @SheInspiresUs ہیشٹیگ کے ساتھ ہمیں بتائیے۔‘

انڈین حکومت کی اس ٹوئٹ کے جواب میں لسی پریا نے شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ یہ اعزاز قبول نہیں کر سکتی ہیں۔

انہون نے اس بارے میں لگاتار کئی ٹوئٹس کیں۔

انہوں نے لکھا کہ ’پیارے رہنماو¿ں اور سیاسی جماعتوں، مجھے اس کے لیے تعریف نہیں چاہیے۔ اس کے بجائے اپنے اراکین پارلیمان سے کہیے کہ پارلیمان میں میری آواز اٹھائیں۔ مجھے اپنے سیاسی مفاد اور پروپگینڈا کے لیے کبھی استعمال مت کیجیے گا۔ میں آپ کے حق میں نہیں ہوں۔‘

لسی پریا ک±نج±م نے #ClimateCrisisکے ساتھ ایک اور ٹوئٹ میں لکھا ’آپ کے اراکین پارلیمان گونگے ہونے کے ساتھ بہرے اور اندھے بھی ہیں۔ یہ ناکامیابی ہے۔ ابھی کارروائی کیجیے۔‘

لسی پریا وزیر اعظم مودی اور اراکین پارلیمان سے ماحولیات میں تبدیلی پر قانون بنائے جانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

لسی پریا کے ایسے سخت رویے پر سوشل میڈیا پر مختلف رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ چند افراد ان کے بولڈ جواب کے لیے ان کی تعریف کر رہے ہیں تو چند کا کہنا ہے کہ انہیں گمراہ کیا گیا ہے۔

کچھ لوگ اس بارے میں بھی سوال کر رہے ہیں کہ یہ ٹوئٹ کیا واقعی انہوں نے ہی کی ہیں؟ کیوں کہ جو باتیں لکھی گئی ہیں، لسی پریا کی عمر اس اعتبار سے بہت کم ہے۔

لسی پریا کے اکاو¿نٹ پر واضح طور پر لکھا ہے کہ ان کا اکائونٹ ان کے سرپرست چلاتے ہیں۔

کچھ لوگ لسی پریا کو یہ کہتے ہوئے ٹرول کر ہے ہیں کہ انہوں نے انڈین حکومت کی جانب سے ملنے والے اعزاز کی توہین کی ہے۔

سوشل میڈیا پر جاری بحث کے درمیان لسی پریا نے چند گھنٹے قبل ایک اور ٹوئٹ کی۔

انہوں نے لکھا، ’پیارے بھائیوں، بہنوں، میڈم۔ مجھ پر آواز کسنا اور اپنا پروپگینڈا چلانا بند کیجیے۔ میں کسی کے خلاف نہیں ہوں۔ میں سسٹم میں تبدیلی چاہتی ہوں، ماحولیات میں نہیں۔ میں کسی سے امید نہیں رکھتی۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ ہمارے رہنما میری آواز سنیں۔ مجھے یقین ہے کہ میری جانب سے انعام قبول نہ کیا جانا میری آواز سنے جانے میں میری مدد کرے گا۔‘

لسی پریا کا موازنہ اکثر سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ سے کیا جاتا ہے۔ حالانکہ لسی پریا کو یہ بات پسند نہیں ہے۔ وہ اس بات پر زور دے کر کہتی ہین کہ ان کی اپنی مختلف پہچان ہے۔

لسی پریا نے ٹوئٹر پر خود کو ایک ’بے گھر ماحولیاتی کارکن بچہ‘ بتایا ہے۔

وزیرا عظم مودی نے چند روز قبل ٹوئٹ کر کے کہا تھا کہ ’اس ویمینس ڈے پر میں اپنے سبھی سوشل میڈیا اکائونٹ ان خواتین کے نام کروں گا جن کی زندگی اور کام سبھی کے لیے متاثر کن ہیں۔ یہ لاکھوں افراد کو متاثر کرنے کا کام کرے گا۔‘

وزیر اعظم مودی نے لکھا تھا کہ ’کیا آپ ایسی خاتون ہیں یا کسی ایسی متاثر کن خاتون کے بارے میں جانتے ہیں؟ #SheInspiresUs کا استعمال کر کے ایسی کہانیاں شیئر کریں۔

Share This Article
Leave a Comment