سرحد پر حالات قابو میں ہیں،کوئی پناہ گزین نہیں آرہا،آئی ایس پی آر

0
197

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے افغانستان کے مسئلے پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرحد پر پاکستان کی طرف سے حالات قابو میں ہیں،کوئی پناہ گزین پاکستان نہیں آ رہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان نے سرحد پر سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون کے علاوہ فوجیوں کی تربیت کی کئی بار پیشکش کی تاہم صرف کچھ ہی افغان افسر یہاں آئے جبکہ سینکڑوں تربیت کے غرض سے انڈیا گئے۔

اس تعاون کا پس منظر بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن پاکستان میں امن و امان کے قیام سے جڑا ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق افغان عوام کے بعد اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’80 ہزار سے زیادہ اموات، 102 بلین ڈالر کے نقصانات، اور ابھی بھی گنتی جاری ہے۔‘

آئی ایس پی آر کے سربراہ کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان 78 راہداریاں ہیں جن میں سے 18 سرکاری نوعیت کی ہیں۔

میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق افغانستان کے ساتھ سرحدی راہداریاں کھلی رکھی گئی ہیں اور تجارت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

ان کا کہنا تھا پاکستان ہی اب افغانستان سے انخلا کے عمل کا سب سے اہم حصہ ہے اور 5500 غیر ملکیوں کو پاکستان کے ذریعے افغانستان سے نکالا جا چکا ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس معاملے کے عسکری پہلوؤں تک محدود رکھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں عسکری صورتحال بہت جلدی تبدیل ہوئی اور کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اتنی تیزی سے حالات بدلیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرحد پر پاکستان کی طرف حالات قابو میں ہیں۔

چین اور ازبکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک سے عسکری تعاون کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان ممالک کی افواج میں کوئی براہ راست رابطے نہیں ہیں اور یہ حکومتی سطح پر ہی محدود ہیں۔

پنجشیر میں جنم لینے والی مزاحمتی تحریک کے حوالے سے سوال پر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا ہمیشہ سے خطرہ رہا ہے تاہم اس وقت صورت حال تیزی سے تبدیل ہو رہی اور اس وقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔

تاہم ان کے مطابق افغانستان میں ابھی خانہ جنگی کا کوئی امکان نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اگر طالبان کی حکومت قائم ہوتی ہے تو پاکستان کی حکومت کا ان کے ساتھ یقیناً رابطہ ہوگا۔

ایک صحافی نے جب ان سے چمن پر آنے والے پناہ گزینوں کے حوالے سے سوال کیا تو میجر جنرل بابر افتخار نے کہا: ’ہمارے ہاں کوئی پناہ گزین نہیں آئے۔‘

یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر چمن کے مقام پر بڑی تعداد میں افغان پاکستان کی جانب آ رہے ہیں۔

ان کے مطابق سرحد پر افراتفری کی صورتحال نہیں ہے اور ہر آنے جانے والا متعلقہ دستاویزات کے ساتھ آ رہا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ کیسے یقینی بنایا جا رہا ہے کہ دولت اسلامیہ خراسان یا کسی اور گروہ کے رکن پناہ گزین بن کر پاکستان میں داخل نہیں ہو جائیں گے تو میجر جنرل بابر افتخار نے اس امکان کو رد نہیں کیا۔

جب میجر جنرل بابر افتخار سے پوچھا گیا کہ کیا انڈیا اور افغان انٹیلی جنس کا گٹھ جوڑ برقرار ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس کا جواب دینے کے لیے ہمیں حکومت سازی کا انتظار کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ انڈیا کا اثر وہاں سے ختم ہو جائے گا۔

’انڈیا کا وہاں کیا کردار رہا ہے؟ جو بھی انھوں نے وہاں سرمایہ کاری کی وہ صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے کی نیت سے کیا گیا۔ انھیں افغان عوام سے کوئی لگاؤ نہیں۔

میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق ہم نے افغان رہنماؤں سے رابطے رکھنے کی کوشش کی لیکن جب بھی ہم مل کر واپس آنے تو کوئی منفی بیان سامنے آ جاتا

ان کے مطابق این ڈی ایس را کے لیے پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی کرتی رہی۔ اگر وہ اپنا کام کرتی تو ایسا نہ ہوتا جو ان کے ساتھ ہوا۔

ایک صحافی نے پوچھا کہ پاکستان نے طالبان سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی درخواست کی ہے لیکن اگر افغان طالبان ایسا نہیں کرتے تو کیا پاکستان کوئی فوجی آپریشن کرے گی۔

اس سوال کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ طالبان نے یقین دلایا ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین سے پاکستان یا کسی بھی اور ملک کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، اس لیے وہ وہاں آزادی سے نہیں رہ سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی طرف کوئی مسئلہ ہوا تو وہ اس کے لیے تیار ہوں گے۔

سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندوں پر ہونے والے حملوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے آئی ایس پی آ ر کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ان تمام حملوں کو منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی اور سب کو خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کی حمایت حاصل تھی۔

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ جب مغربی سرحد پر دہشت گردی کے خلاف آپریشن چل رہے تھے اور مشرقی سرحد پر سیز فائر کی خلاف ورزیاں ہو رہی تھیں، یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے جامع بارڈر مینیجمنٹ سسٹم کا انعقاد کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑے بارڈر ٹرمینل کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا گیا۔

افغان سرحد پر باڑ کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑی اور اہم کاوش تھی۔

اس کام کے دوران کئی پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے۔ انھوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں پاکستان اور ایران کی سرحد پر بھی باڑ لگانے کا کام ہو رہا ہے اور 50 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here