ایک جانب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کابل میں اپنے سفارت خانے بند کر دیے ہیں تو دوسری طرف پاکستان، چین اور روس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے سفارت خانوں کو فعال رکھیں گے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والی ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے اہلکاروں، میڈیا کے نمائندوں اور دیگر افراد کے لیے پاکستانی سفارت خانہ ترجیحی بنیادوں پر ویزے جاری کر رہا ہے جبکہ پاکستانی ایئر پورٹس پر آنے والے افراد کو آمد پر ویزا حاصل کرنے کی سہولت بھی دستیاب ہوگی۔
چین نے افغانستان میں بسنے والے اپنے شہریوں کو اپنے اپنے گھروں میں رہنے کے لیے کہا ہے تاہم چینی حکومت نے یقین دہانی کروائی ہے کہ اس نے افغانستان میں مختلف فریقوں سے اپنے لوگوں کی حفاظت کے بارے میں بات کی ہے۔
دوسری طرف روس کی وزارت خارجہ نے اتوار کو بتایا کہ اس کا کابل میں سفارت خانہ بند کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد چین نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ دوستی اور مشترکہ تعاون بڑھانا چاہتا ہے۔
طالبان نے بھی چین کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور اس سے پہلے بھی ان کی جانب سے ایسے بیان سامنے آئے ہیں جن میں چین سے افغانستان کی ترقی میں ہاتھ بٹانے کی امید شامل ہے۔
واضح رہے کہ چین اور افغانستان کی سرحد ملتی ہے اور ماضی میں بیجنگ کو خدشہ رہا ہے کہ افغانستان اویغور علیحدگی پسندوں کا مرکز بن جائے گا۔
’افغان عوام کو حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا خود تعین کریں اور چین ان کے اس حق کی قدر کرتا ہے۔‘
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے طالبان پر زور دیا کہ انھیں اقتدار کی منتقلی کو پرامن اور کھلی ذہن کی شراکت داری پر مبنی اسلامی حکومت کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ افغان اور بین الاقوامی شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
چین نے ماضی میں بھی امریکہ پر افغانستان سے جلد بازی میں نکلنے پر تنقید کی ہے۔ اگرچہ انھوں نے اب تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تاہم چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے انھیں ’ایک عسکری اور سیاسی حقیقت‘ کہہ کر پکارا ہے۔