طالبان بغیر کسی مزاحمت کے افغانستان کے دارلحکومت کابل میں داخل ہوگئے ہیں اوراقتدار کی پُر امن منتقلی کیلئے مذاکرات جاری ہیں۔
افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کا ایک وفد مذاکرات کے لیے صدارتی محل میں داخل ہو چکا ہے اور مذاکرات جاری ہیں۔
اطلاعات کے مطابق افغان صدر محمد اشرف غنی نے افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد اور نیٹو کے ایلچیوں کے ساتھ ایک ہنگامی ملاقات کی ہے۔
جبکہ آج صبح طالبان نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کابل کے شہریوں کو یقین دلایا کہ وہ شہر میں داخل نہیں ہوں گے اور اقتدار کی منتقلی پرامن ہوگی۔
کابل میں موجود بی بی سی کے نمائندے کے مطابق کابل ائیر پورٹ پر پاکستان آئیر لائن کی پرواز پی کے 250 ایک گھٹے سے کھڑی ہے جسے اڑنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
فلائٹ ریڈار کے ڈیٹا کے مطابق دہلی اور دبئی سے آنے والی دو پروازیں جنھیں کابل کے ہوائی اڈے پر لینڈ کرنا تھا وہ ابھی تک ائیر پورٹ کے اوپر ہی چکر لگا رہی ہیں۔
افغان حکومت کے حکام نے ابھی تک ان رپورٹس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اس سے قبل طالبان نے ایک بیان میں طالبان نے اقتدار کی پُرامن منتقلی پر زور دیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق طالبان کی کابل آمد کے بعد افغان صدر اشرف غنی، امریکی نمائندے خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور نیٹو حکام کے مابین ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔
سنیچر کو طالبان پیش قدمی میں تیزی پر صدر غنی نے تسلیم کیا تھا کہ ملک ’خطرے میں ہے۔‘ انھوں نے کہا تھا کہ افغان فوج کی تنظیم نو ان کی اولین ترجیح ہے۔
تاہم اطلاعات کے مطابق طالبان کو کابل پہنچنے میں بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مقامی رہنماؤں سے مذاکرات کے بعد طالبان نے لڑائی کے بغیر مشرقی شہر جلال آباد پر قبضہ کیا اور اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ وہ کابل داخل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
حکومتی فورسز کی ناکامی پر صدر اشرف غنی سے استعفی لینے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ امریکہ نے کابل میں اپنے شہریوں اور سفارتی عملے کی واپسی کے لیے مزید پانچ ہزار فوجیوں کی تعیناتی کی ہے۔
طالبان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ افغانستان میں اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیے افغان حکومت کے ساتھ براہِ راست مذاکرات جاری ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی بی بی سی پشتو ویب سائٹ کو تصدیق کی ہے کہ قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ثالثی کر رہے ہیں۔
انھوں نے ان خبروں کی بھی تردید کی کہ گروپ کے پولیٹیکل بیورو چیف ملا برادر کابل پہنچے ہیں۔
افغان حکومت نے ابھی تک طالبان کے تبصرے پر کوئی ردِعمل نہیں دیا ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق کابل میں کئی دکانیں بند ہیں اور سرکاری دفاتر خالی کر لیے گئے ہیں۔ دارالحکومت میں افغان فوج اور طالبان کے درمیان لڑائی کا خدشہ ہے مگر طالبان نے کہا ہے کہ وہ طاقت کے زور پر یہاں قبضہ نہیں کریں گے۔
طالبان نے کابل پہنچنے کے بعد اپنے بیان میں کہا ہے کہ لوگ شہر یا ملک چھوڑ کر نہ جائیں کیونکہ وہ کسی سے انتقام لینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ’وہ تمام لوگ جنھوں نے کابل انتظامیہ میں فوجی اور سویلین شعبوں میں خدمات انجام دی ہیں انھیں معاف اور محفوظ رکھا گیا ہے، کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ سب کو اپنے اپنے ملک میں رہنا چاہیے، اپنی جگہ اور گھر میں اور ملک چھوڑنے کی کوشش نہ کریں۔‘
طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ’تمام افغان زندگی کے ہر شعبے سے مستقبل کے اسلامی نظام میں خود کو ایک ذمہ دار حکومت کے ساتھ دیکھیں جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔‘
افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ عبدالستار مرزاکوال کا کہنا ہے کہ کابل پر حملہ نہیں کیا جائے گا اور اقتدار پرامن طریقے سے منتقل ہو گا۔
طلوع نیوز پر جاری کردہ ویڈیو پیغام میں انھوں نے کابل کے شہریوں کو یقین دلایا کہ سکیورٹی فورسز شہر کی حفاظت کو یقینی بنائیں گی۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے بگرام ائیر بیس کی سب سے اہم جیل پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
ٹویٹر پر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ تمام قیدیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور کابل میں مسلح جنگجوؤں کے داخلے کے موقع پر مختلف مقامات پر فائرنگ کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ تاہم افغان صدر کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بتایا گیا ہے کہ صورتحال کنٹرول میں ہے۔
اس پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’کابل میں وقفے وقفے سے فائرنگ ہوئی ہے۔ کابل پر حملہ نہیں ہوا۔ ملک کی دفاعی فورسز بین الاقوامی اتحادیوں کے ساتھ مل کر شہر میں سکیورٹی کو یقینی بنا رہی ہیں۔ صورتحال قابو میں ہے۔‘
افغان طالبان نے ایک بیان میں کابل میں ’لڑائی نہ کرنے کا اعلان‘ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’دارالحکومت کابل ایک بڑا اور گنجان آباد شہر ہے۔ امارت اسلامیہ کے مجاہدین طاقت یا جنگ کے ذریعے شہر میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے، بلکہ کابل کے ذریعے پُرامن طریقے سے داخل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کسی کی جان، مال اور عزت پر سمجھوتہ کیے بغیر۔‘
’(ہم) اپنی تمام افواج کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ کابل کے دروازوں پر کھڑے رہیں، شہر میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔۔۔ ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ امارت اسلامیہ کسی سے انتقام لینے کا ارادہ نہیں رکھتی۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغان وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ طالبان کابل میں چاروں اطراف سے داخل ہو رہے ہیں۔
دوحہ میں طالبان رہنماؤں نے کہا ہے کہ مسلح جنگجوؤں کو یہ ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ کابل میں پُرتشدد کارروائیوں سے گریز کریں، شہر سے باہر نکلنے والوں کو راستہ دیں اور خواتین و بچوں کو حفاظتی مقامات تک پہنچائیں۔
نیٹو اہلکار نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ کابل میں یورپی یونین کے ممبران کو ایک نامعلوم حفاظتی مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
فضائی حملوں کی قوت کے بغیر طالبان نے راکٹ حملوں اور دیگر ہتھیاروں کی مدد سے زمینی لڑائی میں کئی شہروں اور اہم صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ جبکہ کچھ علاقوں میں مقامی رہنماؤں نے خونریزی سے بچنے کے لیے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
دارالحکومت کابل میں صرف اسی صورت میں خونریزی روکی جاسکتی ہے اگر حکومت اور طالبان میں سیاسی معاہدہ طے پاتا ہے۔
تاہم طالبان نے کہا ہے کہ وہ صدر اشرف غنی کی قیادت میں حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔
دوسری طرف صدر غنی نے استعفے کا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے۔
عالمی سطح پر بھی دونوں فریقین کے درمیان سیز فائر اور سیاسی مفاہمت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
افغان فوج نے واضح پیغام دیا تھا کہ وہ کابل کا دفاع کرے گی لیکن ایسا کرنے میں ناکام رہا۔
افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسلح جنگجوؤں کے ’دروازے ان تمام لوگوں کے لیے کھلے ہیں جنھوں نے ماضی میں دخل اندازوں کی مدد کی، یا اب وہ بدعنوان کابل انتظامیہ کی صف میں کھڑے ہیں۔
’ہم پہلے ہی عام معافی (ایمنسٹی) کا اعلان کر چکے ہیں۔ ہم ایک بار پھر ان سب کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں، قوم اور ملک کی خدمت کریں۔‘