صدر ٹرمپ کی طالبان رہنماملا برادر سے آدھا گھنٹہ ٹیلیفون پر بات چیت

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

امریکہ اور طالبان کے درمیان جنگ بندی کے جزوی معاہدے کے خاتمے کے بعد دونوں فریقین میں جھڑپیں دوبارہ شروع ہو گئی ہیں جو کہ اگلے ہفتے منعقد ہونے والے امن مذاکرات پر سوالیہ نشان ہیں۔

افغان حکام کے مطابق ملک کے 16 صوبوں میں ہونے والے درجنوں پرتشدد واقعات میں کل آٹھ شدت پسند، چھ عام شہری اور آٹھ سکیورٹی ہلاک ہوئے ہیں۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی ایک طالبان رہنما کے ساتھ ’بہت اچھی بات چیت‘ ہوئی ہے۔

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کی ٹویٹس کے کے مطابق امریکی صدر اور طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر نے تقریباً آدھے گھنٹے ٹیلیفون پر بات کی اور کہا کہ دونوں افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پرعزم تھے۔

یہ فون کال گذشتہ ہفتے طے پانے والے امن معاہدے کے بعد امریکی صدر اور طالبان کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ ہے۔

سہیل شاہین کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو سے کہیں گے کہ وہ افغان صدر اشرف غنی سے بات کریں تاکہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات معمول کے مطابق ہو سکیں۔

طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے تنازعے کے وجہ سے مبصرین کو امریکہ اور طالبان کے درمیان ھے پانے والا معاہدہ کھٹائی میں پڑتا نظر آ رہا ہے۔ اس معاہدے میں افغان حکومت براہ راست فریق نہیں ہے۔

افغان حکومت کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں میں، جب سے طالبان نے حملے شروع کیے ہیں، 20 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

وزارتِ داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی کے مطابق چھ شہری ہلاک اور 14 زخمی ہوئے ہیں۔ انھوں نے دعوی کیا کہ آٹھ حملہ آوروں کو بھی ہلاک کیا گیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قندھار صوبے میں ایک حملے میں دو فوجی ہلاک ہوئے۔

صوبہ لوگر کے ترجمان کے مطابق کابل کے قریب ایک چیک پوسٹ پر حملے میں پانچ پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے جبکہ ہرات میں بھی ایک افغان فوجی اہلکار کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment