ایران کے نو منتخب صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ نہ وہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کریں گے اور نہ ہی ایران کے میزائل پروگرام اور خطے کے عسکری گروہوں کی حمایت کے معاملے پر کوئی مذاکرات ہوں گے۔
صدرمنتخب ہونے کے بعد پیر کو اپنی پہلی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ابراہیم رئیسی نے کہا کہ صدر بائیڈن کو ایران پر عائد پابندیاں ختم کر کے اپنی سنجیدگی ثابت کرنا ہو گی۔
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ’ارنا‘ کے مطابق ایک سوال کے جواب میں رئیسی کا کہنا تھا کہ امریکہ کو مشورہ دوں گا کہ وہ جوہری معاہدے کی طرف واپس آ جائے کیوں کہ یہ ایرانی قوم کا مطالبہ ہے۔
خبررساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ امریکہ کے صدر سے ملاقات کرنا چاہیں گے تو اس پر انہوں ں ے صرف ’نہیں‘ کہنے پر اکتفا کیا۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے تاحال رئیسی کے بیانات پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
نومنتخب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے جب 1988 میں ایران میں پانچ ہزار سے زائد افراد کو مبینہ طور پر سیاسی بنیادوں پر موت کی سزاؤں کے فیصلوں میں ملوث ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بطور وکیل وہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
ابراہیم رئیسی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ 1980 کی دہائی میں عراق ایران جنگ کے بعد ایران میں مبینہ طور پر سیاسی مخالفین کو سزائیں دینے کے لیے بنائے گئے ’ڈیتھ پینل‘ میں شامل تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کی جواب دہی اور ان کا دفاع کرنے والوں کی تحسین ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ بطور پراسیکیوٹر جنرل میں نے لوگوں کے حقوق کا دفاع کیا ہے۔
ابراہیم رئیسی کا مزید کہنا تھا کہ پڑوسی ممالک سے تعلقات کی بحالی ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے لیے ایک دوسرے کے ممالک میں سفارت خانے کھولنا ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سمیت خطے کے دیگر ممالک سے بات چیت کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
ابراہیم رئیسی کی انتخابات میں کامیابی کی تصدیق ہونے کے بعد اتوار کو امریکہ کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان نے کہا تھا کہ ایران کو جوہری پروگرام سے روکنے کے لیے بین الاقوامی معاہدے میں امریکہ کی دوبارہ شرکت کا انحصار ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے فیصلوں پر ہوگا۔
ابراہیم رئیسی اگست میں اپنے منصب پر فائز ہوں گے جس کے بعد اعتدال پسند سمجھے جانے والے موجودہ صدر حسن روحانی کا آٹھ سالہ دورِ اقتدار ختم ہو جائے گا۔ لیکن امریکہ کے مشیربرائے قومی سلامتی جیک سلیوان نے اتوار کو ’اے بی سی نیوز‘ کے شو ’دِس ویک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر کون منتخب ہوا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اس سے زیادہ اہم نہیں کہ ان (ایران) کا پورا نظام جوہری ہتھیاروں سے ایران کی دست برداری کے لیے قابلِ تصدیق وعدوں کے لیے تیار ہے یا نہیں۔
امریکہ دنیا کی دیگر پانچ عالمی قوتوں کے ساتھ 2015 میں ہونے والے معاہدے میں از سرِ نو شمولیت کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔ یہ معاہدہ سابق صدر اوباما کے دور میں ہوا تھا لیکن ان کے بعد صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آکر اس معاہدے کو ایران کا جوہری پرگرام روکنے کے لیے ناکافی قرار دیتے ہوئے اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
اس فیصلے کے بعد صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایران پر دوبارہ وہ پابندیاں عائد کر دی تھیں جو اس معاہدے کے نتیجے میں ختم کی گئی تھیں۔
صدر اوباما کے دورِ حکومت میں جب ایران کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تو موجودہ صدر بائیڈن اس وقت نائب صدر تھے۔ صدر بائیڈن اپنے پیش رو سابق صدر ٹرمپ کی معاہدے سے علیحدگی کے بعد دوبارہ ایران کے ساتھ اس معاہدے کا حصہ بننے کے لیے مشروط آمادگی ظاہر کر چکے ہیں۔
ادھر آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے چھ ممالک کا اجلاس اتوار کو ملتوی ہو چکا ہے اور سفارتی نمائندگان مزید مشاورت کے لیے اپنے اپنے ممالک واپس چلے گئے ہیں۔
ایران میں ابراہیم رئیسی کے منتخب ہونے کے بعد یہ جوہری معاہدے پر ہونے والا پہلا اجلاس تھا۔
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق اجلاس میں شریک بعض سفارت کاروں نے قدامت پسند سمجھے جانے والے ابراہیم رئیسی کے صدر منتخب ہونے کے باعث جوہری معاہدے کی بحالی میں پیچیدگیاں پیدا ہونے کے امکانات کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
روس، چین، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور ایران کے مابین ہونے والے مذاکرات کی سربراہی کرنے والے یورپی یونین کے عہدے دار اینرک مورا کا کہنا تھا کہ ہم سمجھوتے کے قریب پہنچ گئے ہیں لیکن ابھی معاہدہ طے نہیں پایا ہے۔
ویانا میں جاری ان مذاکرات میں امریکہ کا کوئی نمائندہ براہ راست شریک نہیں ہے لیکن صدر بائیڈن کی انتطامیہ ایران کے ساتھ 2015 کے معاہدے کی بحالی کا عندیہ دے چکی ہے۔
’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق امریکہ کے ایک وفد نے ویانا میں ایران کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کی ہے۔ ان رابطوں میں جوہری معاہدے کے شریک ممالک نے رابطہ کار کا کردار ادا کیا تھا۔
ویانا مذاکرات میں ایرانی وفد کے سربراہ عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ ہم معاہدے کے بہت قریب ہیں لیکن ہمارے اور سمجھوتے کے درمیان جو فاصلہ تاحال موجود ہے اسے دور کرنا آسان نہیں ہو گا۔
اپنے انٹرویو میں جیک سلیوان نے بھی اسی صورتِ حال کی نشان دہی کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کلیدی امور پر ابھی بہت سا فاصلہ طے کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارا سفر درست سمت میں جاری ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران مشکل فیصلے کر پاتا ہے یا نہیں۔
جیک سلیوان کا کہنا تھا حتمی فیصلہ ایران کے رہبر اعلیٰ ہی نے کرنا ہے کہ وہ سفارت کاری کا راستہ اختیار کرتا چاہتے ہیں یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نزدیک سفارت کاری اس مسئلے کا بہترین حل ہے۔ ہم اس بارے میں بالکل واضح ہیں کہ ایران کو اپنا جوہری پروگرام بند کرنا ہو گا۔
’فاکس نیوز سنڈے‘ کو دیے گئے ایک اور انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ ہونے والے ممکنہ معاہدے کی میعاد موجودہ سمجھوتے میں طے شدہ 2030 تک کی مدت سے زیادہ ہو سکتی ہے۔