جی سیون ممالک میں ملٹی نیشنل کمپنیوں گوگل وفیس بک پر ٹیکس لگانے پر اتفاق

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

برطانوی وزیرِ خزانہ رشی سُونک نے اعلان کیا ہے کہ ترقی یافتہ معیشتوں پر مشتمل جی سیون کہلانے والا گروپ ملٹی نیشنل کمپنیوں پر ٹیکس عائد کرنے کے ایک ‘تاریخی’ معاہدے پر متفق ہو گیا ہے۔

جی سیون ممالک کے وزرائے خزانہ کے لندن میں ہونے والے اجلاس میں شرکا کم سے کم کارپوریٹ ٹیکس 15 فیصد رکھنے کے اصول پر متفق ہو گئے ہیں۔

ایمیزون اور گُوگل جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں اس ٹیکس سے متاثر ہونے والوں میں شامل ہو سکتی ہیں۔

اس معاہدے کے نتیجے میں جو ٹیکس عائد ہو گا اُس سے ان ممالک کی حکومتوں کو اربوں ڈالرز کی آمدن ہو سکتی ہے جس سے وہ کووڈ-19 کی وبا کی وجہ سے اقتصادی بحران کے دوران لیے گئے حکومتی قرضوں کو واپس ادا کر سکتی ہیں۔

امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، کینیڈا، اٹلی اور جاپان کے کے درمیان یہ طے پانے والا معاہدہ 20 دیگر امیر ممالک کے اگلے مہینے ہونے والے اجلاس پر بھی ایک دباؤ پیدا کر دے گا کہ وہ بھی کثیرالاقوامی یا ملٹی نیشنل کمپنیوں ہر اسی قسم کا ٹیکس لگائیں۔

رشی سونک نے کہا کہ اس کارپوریٹ ٹیکس کے نظام کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ عالمی کمپنیوں کو دنیا بھر میں ایک ہی انداز کا ٹیکس دینا پڑے۔

انھوں نے کہا کہ ‘کئی برسوں سے جاری بحث و مباحثے کے بعد جی سیون کے وزرائے خزانہ عالمی سطح کے ٹیکس کے نظام کی اصلاح کرنے کے تاریخی معاہدے پر متفق ہوئے ہیں تا کہ اسے آج کے ڈیجیٹل دور کے مطابق از سرِ نو وضع کیا جا سکے۔’

عالمی سطح پر کام کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں پر کارپوریٹ ٹیکس عائد کرنے کے معاملے پر حکومتیں کافی عرصے سے غور کرتی رہی ہیں کہ یہ ٹیکس کس طرح لگایا جائے اور کس طرح جمع کیا جائے۔

تاہم ایمیزون اور فیس بُک جیسی بڑی کمپنیوں کے فروغ پانے کے بعد یہ معاملہ اب بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

اب تک ایسا ہو رہا ہے کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے مرکزی دفتر ایسے ممالک میں قائم کر لیتی ہیں جہاں کارپوریٹ ٹیکس کی شرح قدرے کم ہوتی ہے اور یہ اپنے منافعوں کا اعلان انہیں ممالک میں کرتے ہیں۔

کیونکہ ان ممالک میں ٹیکس کی شرح کم ہوتی ہے اس لیے یہ کمپنیاں کم ٹیکس ادا کرتی ہیں جبکہ ان کمپنیوں کا منافع کسی اور ملک میں بزنس کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح کم ٹیکس ادا کرنا قانونی طور پر جائز ہو بن جاتا ہے اور ایسی بڑی کثیرالاقوامی کمپنیاں عام طور پر ایسا ہی کر رہی ہیں۔

جی سیون ممالک کے وزرائے خزانہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا مقصد اسی کام کو دو طریقوں سے روکنا ہے۔

اول یہ کہ G-7 ممالک عالمی سطح پر ایک کم سے کم ٹیکس کی شرح قائم کرنا چاہتے ہیں تا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کمپنیوں کو اپنے اپنے ملک میں لانے کے لیے ٹیکس کی شرح کو کم سے کم کرنے کی دوڑ شروع ہو جائے۔

دوسرا یہ کہ اس معاہدے کے مطابق طے پانے والے اصول و ضوابط میں یہ طے ہو گا کہ یہ کمپنیاں بجائے اس کے ان ممالک میں ٹیکس ادا کریں جہاں یہ رجسٹرڈ ہیں، یہ ان ممالک میں ٹیکس ادا کریں گی جہاں یہ اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں یا یہ اپنی مصنوعات فروخت کر رہی ہیں۔

اس معاہدے میں یہ بھی طے پایا ہے کہ جس ملک میں یہ کمپنیااں کاروبار کر رہی ہیں وہاں ان کے دس فیصد منافع پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اسے ’فرسٹ پلر‘ کا اصول کہا گیا ہے۔

جی سیون کے اعلامیے کے مطابق اس کمپنی کے پہلے دس فیصد سے زیادہ بیس فیصد منافع کو جس ملک میں یہ کاروبار کر رہی ہے وہاں سے اُس ملک میں شمار کیا جائے گا جہاں پر یہ رجسٹرڈ ہے۔

اس معاہدے کی وجہ سے اگر کوئی کمپنی برطانیہ میں کاروبار کر ہی ہے تو یہ یہاں زیادہ ٹیکس ادا کرے گی جس سے سرکاری قرضوں کی واپس ادائیگی میں مدد ملے گی۔

معاہدے کے ’سیکنڈ پلر‘ کے مطابق، تمام ممالک 15 فیصد سے کم شرح کا ٹیکس عائد نہیں کریں گے۔

اب اس معاہدے پر جی سیون ممالک کے وزرائے خزانہ اور ان کے مرکزی بینکوں کے سربراہوں کے اجلاس میں زیرِ بحث لایا جائے گا جو جولائی میں ہو رہا ہے۔

ری پبلک آف آئرلینڈ کے وزیرِ خزانہ، پاسچل ڈونوہو نے، جن کا ملک اس وقت ان کمپنیوں پر ساڑھے بارہ فیصد کارپوریٹ ٹیکس عائد کرتا ہے، کہا ہے کہ ’یہ سب کے مفاد میں ہے کہ ٹیکس کی پائیدار، زبردست اور برابر شرح پر اتفاق کیا جائے‘ لیکن اس میں چھوٹے اور بڑے ممالک اور ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے مفادات کا بھی برابر کی سطح پر خیال رکھا جائے۔

Share This Article
Leave a Comment