پاکستان کے میڈیا پبلشرز، صحافیوں، براڈکاسٹرز، ایڈیٹرز اور نیوز ڈائریکٹرز کی نمائندہ تنظیموں نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) آرڈیننس کو مسترد کردیا ہے۔
میڈیا تنظیموں نے مجوزہ آرڈیننس کو آزادی صحافت اور اظہار رائے کے خلاف غیر آئینی اور سخت قانون قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ایسے اقدام سے میڈیا کے تمام شعبہ جات کو ریاستی کنٹرول کے زیر اثر کرنا چاہتی ہے۔
آل پاکستان نیوز پیپرس سوسائٹی (اے پی این ایس)، پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے)، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے، بارنا گروپ)، پی ایف یو جے (دستور گروپ) اور ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک، میڈیا ایڈیٹرز اور نیوز ڈائریکٹرز (اے ای ایم ای اینڈ) کے مشترکہ اجلاس میں متفقہ رائے تھی کہ مجوزہ پی ایم ڈی اے کا مقصد میڈیا کی آزادی کو روکنا اور انفارمیشن بیوروکریسی کے ذریعے میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔
اے پی این ایس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر تنویر اے طاہر کے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت میڈیا پر اپنی گرفت سخت کرنا چاہتی ہے جبکہ اس نے اس حقیقت کو بھی نظر انداز کردیا کہ پرنٹ، ڈیجیٹل اور الیکٹرانک میڈیا کئی اعتبار سے الگ الگ خصوصیات کے حامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پرنٹ، ڈیجیٹل اور الیکٹرک کی اپنی اپنی خصوصیات اور متعلقہ ریگولیٹری قوانین ہیں۔
صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں نے کہا کہ یہ اقدام دراصل ایوب خان دور کے پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس 1963 (پی پی او) کی توسیع ہے جس کے ذریعے آزاد میڈیا پر اپنا کنٹرول حاصل کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے مجوزہ قانون کی جمہوریت کے حامل ملک میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ میڈیا کو کنٹرول کرنے اور عوام کو جاننے کے حق کو کم کرنے کی اس ظالمانہ کوشش کے خلاف عوام کو آگاہ کرنے کے لیے پی ایم ڈی اے کی ہر سطح پر مزاحمت کی جائے گی۔
اس سلسلے میں نمائندہ اداروں نے مزید اقدامات کا فیصلہ کرنے کے لیے اے پی این ایس، پی بی اے، سی پی این ای، پی ایف یو جے اور ایم ای ایم این ڈی کی مشترکہ ایکشن کمیٹی تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہے۔
علاوہ ازیں سیاسی جماعتوں، بار ایسوسی ایشنز، حقوق تنظیموں اور سول سوسائٹی کے دیگر طبقات سے حمایت حاصل کرنے کا اعادہ کیا گیا۔
بعدازاں صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں نے مجوزہ آرڈیننس کو ’میڈیا پر حملہ‘ قرار دے کر وفاقی حکومت کو تجویز دی کہ اسے فوری طور پر واپس لیا جائے۔