طالبان قیدیوں کی رہائی کا وعدہ نہیں کیا، افغان صدر

0
439

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا وعدہ نہیں کیا، جیسا کہ دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں کہا گیا ہے۔

سنیچر کو قطر میں ہونے والے تاریخی امن معاہدے کے مطابق 5000 طالبان قیدیوں کی رہائی کے بدلے طالبان کے زیر حراست ایک ہزار قیدیوں کو 10 مارچ تک رہا کیا جائے گا۔

صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ قیدیوں کی یہ رہائی ’بات چیت کی شرط نہیں ہو سکتی‘ لیکن مذاکرات کا حصہ ضرور ہو سکتی ہے۔

یاد رہے کہ سنیچر کو امریکہ اور افغان طالبان نے طویل عرصے سے جاری امن مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت افغانستان میں گذشتہ 18 برس سے جاری جنگ کا خاتمہ ممکن ہو پائے گا۔

اس معاہدے میں افغانستان سے امریکی فوج کا مرحلہ وار انخلا بھی شامل ہے۔ جس کے بدلے میں افغان طالبان نے افغان حکومت سے امن مذاکرات کرنے پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔

معاہدے کے تحت طالبان اپنے زیر کنٹرول علاقوں سے شدت پسند تنظیم القاعدہ اور دیگر ایسی تنظیموں کی کارروائیوں کو بھی روکے گیں۔

افغان صدر اشرف غنی نے کابل میں رپورٹرز کو بتایا ’مکمل جنگ بندی کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے تشدد میں کمی لانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔‘

لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا ’یہ افغانستان کے عوام کے حق اور خواہش کا معاملہ ہے۔ اسے انٹرا افغان مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کیا جا سکتا ہے لیکن یہ مذاکرات کی کوئی شرط نہیں ہو سکتی۔‘

انھوں نے مزید کہا ’کسی بھی قیدی کی رہائی ’امریکی اختیار میں نہیں‘ بلکہ ’افغان حکومت کے اختیار میں‘ ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دس ہزار طالبان جنگجو افغانستان میں قید ہیں۔

افغان طالبان کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ ملا خیراللہ خیر خواہ نے معاہدے پر دستحظ کی تقریب کے بعد بی بی سی کے نامہ نگار عزیز اللہ خان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے کے لیے تشدد میں کمی پر عمل درآمد ہوا اور انھوں نے ثابت کیا کہ وہ ان علاقوں میں امن قائم رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ معاہدے کے تحت امریکیوں پر اور امریکیوں کی جانب سے طالبان پر حملے نہیں ہوں گے اور وہ اس پر قائم رہیں گے لیکن جہاں تک بات کابل انتظامیہ کی ہے تو ان پر اس معاہدے کا اطلاق نہیں ہوتا۔

انھوں نے کہا کہ کابل انتظامیہ کے ساتھ جب تک کوئی معاہدہ نہیں ہوتا جنگ جاری رہے گی لیکن بین الافغان مذاکرات میں اگر جنگ بندی کا فیصلہ ہوتا ہے تو شاید یہ جنگ بندی مستقل طور پر قائم رہ سکتی ہے۔

ملا خیراللہ خیر خواہ سے جب پوچھا گیا کہ 14 ماہ میں اس معاہدے پر اب عمل درآمد کتنا مشکل اور کتنا آسان نظر آتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ پیشرفت ضرور ہو گی اور اگر کابل انتظامیہ نے سنجیدگی سے حل تلاش کیا تو یہ امن معاہدہ مکمل قابل عمل ہو سکتا ہے۔

قطر میں افغان طالبان کے ترجمان شہیل شاہین نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کابل انتظامیہ کے علاوہ وہ دیگر تمام دھڑوں سے مذاکرات کر رہے تھے اور اب بین الافغان مذاکرات میں وہ تمام دھڑوں کے ساتھ بیٹھیں گے۔

انھوں نے کہا کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے مشکلات ضرور پیش آ سکتی ہیں لیکن انھیں امید ہے کہ اب سب کو احساس ہونا چاہیے کہ اس کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا، اس لیے ان مذاکرات سے مسائل حل کریں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here