افغانستان : کابل کے اسکول میں دھماکا، طالبات سمیت 40 افراد ہلاک

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ایک اسکول میں ہونے والے متعدد دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم 40 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق زخمیوں میں زیادہ تر طالبات شامل ہیں اور افغان صدر اشرف غنی نے اس حملے کا الزام طالبان پر عائد کیا ہے۔

وزارت داخلہ کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ سید الشہدا اسکول سے لائی جانے والی زیادہ تر لاشیں طلبا کی ہیں۔

ٹی وی چینل ٹولو نیوز کی فوٹیج اسکول کے باہر دردناک مناظر کی منظر کشی کر رہی ہے جہاں سڑک پر خون میں لت پت کتابیں اور اسکول بیگ پڑے ہیں اور مقامی افراد اپنے تئیں مدد کر کے زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر رہے تھے۔

وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان کے مطابق دھماکے میں 30 افراد ہلاک اور 52 زخمی ہوئے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اسکول کو کیوں ہدف بنایا گیا۔

کابل ان دنوں ہائی الرٹ پر ہے کیونکہ واشنگٹن نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجیوں کا افغانستان سے انخلا ہو جائے گا اور افغان حکام کے مطابق اس اعلان کے بعد طالبان نے ملک بھر میں حملے تیز کر دیے ہیں۔

ابھی تک کسی بھی گروپ نے ہفتے کو کیے گئے ان حملوں کی ذمے داری قبول نہیں کی جبکہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی اس حملے میں اپنے گروپ کے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے واقعے کی مذمت کی ہے۔

ہفتے کے روز دھماکے مغربی کابل میں ہوئے جو شیعہ اکثریتی علاقہ ہے جسے گزرے سالوں کے دوران داعش کئی مرتبہ نشانہ بنا چکا ہے۔

وزارت تعلیم کی ترجمان نجیبہ آریان نے رائٹرز کو بتایا کہ یہ لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے ایک مشترکہ ہائی اسکول ہے جس میں تین شفٹوں میں تعلیم دی جاتی ہے اور اسکول کی دوسری شفٹ طالبات کے لیے مختص ہے۔

انہوں نے بتایا کہ زخمیوں میں زیادہ تر طالبات ہیں۔

افغانستان میں یورپی یونین مشن نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ کابل میں دشت برچی کے علاقے میں دہشت گردی کا حملہ قابل مذمت اقدام ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر اسکول میں لڑکیوں کو نشانہ بنانے کا مقصد افغانستان کے مستقبل پر حملہ ہے۔

افغان صدر اشرف غنی نے حملے کا الزام طالبان پر عائد کیا۔

اشرف غنی نے کہا کہ طالبان اپنی ناجائز جنگ اور تشدد کو بڑھا کر ایک بار پھر یہ ظاہر کر چکے ہیں کہ وہ ناصرف موجودہ بحران کو پرامن طریقے سے پر حل کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں بلکہ وہ صورتحال کو پیچیدہ بھی بنانا چاہتے ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment