….پاھار……
بلوچستان و سندھ میں بلوچوں کی عزت و
املاک پر پاکستانی فوج کی نئی نقب زنی
ماہ ِ اپریل میں 39سے زائد فوجی آپریشنز میں 41 افرادلاپتہ،
27افرادقتل،100سے زائد گھر نذر آتش
سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے
میڈیا بلیک آوٹ یا کنٹرول میڈیا کی وجہ سے مقبوضہ بلوچستان میں جاری پاکستانی جنگی جرائم کیمرے کی آنکھوں سے اوجھل ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ کہ قابض ریاست کی جنگی جرائمز میں روز مختلف طریقوں سے اضافہ ہو رہا ہے۔
اپریل کے مہینے میں جہاں مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی فورسز نے39 آپریشنز میں 41 افراد کو لاپتہ کیا،وہیں دوران آپریشنز80 گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ فورسز نے105 گھروں کو نذ ر آتش کیا اور سو سے زائد مال مویشی ساتھ لے گئے۔
اپریل کے مہینے میں 27 نعشیں رپورٹ ہوئے،جس میں سے19 بلوچ پاکستانی فورسز،انکی خفیہ اداروں ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔چار لاشوں کے محرکات سامنے نہ آ سکے، جبکہ چار بلوچ بھوک اور پیاس سے ریاستی فورسز کی درندگی کا نشانہ ہو کر جابحق ہو گئے۔
اسی مہینے فورسز کی جانب سے ایک اسکول کو آرمی کیمپ میں تبدیل کرنے کے ساتھ16 نئی چوکیاں بنائی گئیں۔
اپریل کے مہینے میں فورسز کی عقوبت خانوں سے7 افراد بازیاب ہوئے جس میں سے2021 سے ایک،2020 سے دو،2017 سے ایک اور2019 سے تین لاپتہ افراد شامل تھے۔
ریاستی فورسز ہاتھوں شہید ہونے والے چار افراد کو افغانستان میں قتل کیا گیا جو مہاجرین کی زندگی گزار رہے تھے اسی طرح ایران میں بھی تین بلوچوں کو قتل کیا گیا۔یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ افغانستان میں بلوچ مہاجرین کوقتل کیا گیا بلکہ درجنوں بلوچوں کو افغانستان اور ایران میں ریاستی خفیہ اداروں یا انکے ڈیتھ اسکواڈ نے شہید کیا ہے۔
چار بلوچ مادریں وطن کی دفاع میں شہید ہوئے،ایران سے منسلک طویل بارڈر جہاں لاکھوں بلوچوں کی روزگار وذرائع آمدن منسلک ہے کئی مہینوں سے فورسز نے بند کر کے رکھا ہے۔بھوک،گرمی،پیاس سے چار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے،جبکہ بارڈر ٹریڈ کو فوج نواز پارلیمانی کاروباریوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔عام غریب مزدور،چھوٹے کاروباری دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہو گئے ہیں۔
تازہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم عمران نیازی نے بلوچستان،ایران طویل سرحد پر بارڈر مارکیٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس ٹریڈ کو پاکستانی فوج کے حوالے کیا جائے گا یعنی فوج ٹریڈ کرے گی اور عام بلوچ،مزدو سمیت چھوٹے بلوچ کارباریوں کے اس میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔
اطلاعات ہیں کہ فوج اپنی عسکری کمپنیوں کے ذریعے ٹریڈ کرنے کے ساتھ پنجاب سے مزدور اور کاروباری لوگ اس سے مستفید ہونگے اور پاکستان نواز بڑے بلوچ کاروباریوں کو بھی تھوڑا بہت اس میں شامل کیا جائے گا۔
اپریل کے مہینے میں ضلع پنجگور میں پاکستانی فورسز نے ایک بے گناہ بلوچ کو چیک پوسٹ کے پاس اس کے گاڑی پر فائرنگ کر کے قتل کیا،جبکہ کوئٹہ میں ریاستی خفیہ اداروں کے کارندوں نے ایک صحافی کو سچ بولنے لکھنے کی پاداش میں ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سلا دیا۔
ہر سال،ہر مہینے، ہر دن بلوچ سرزمین ان کے وارثوں کے لیے تنگ کردی گئی ہے۔درندہ صف پاکستانی اسلامی فوج جو آئے روز زمینی و فضائی آپریشنز میں بلوچوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔حیات بلوچ کی لرزہ خیز قتل کے بعد ایک بار پھر ریاستی فوج نے اپنی درندگی سے زمین آسمان کو ہلا کر رکھ دیا۔جب اسلامی شدت پسند فوجی اہلکاروں نے ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ میں ایک دس سالہ بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر قابض فوج اور اسکے پارلیمانی ایجنٹوں نے معصوم بچے کو خاموش رہنے کے لیے دباؤ ڈالا اور میڈیکل رپورٹ بدل دی، مگر عظیم ماں نے دشمن فورسز کو تربت چوک میں للکار دیا اور کہا کہ ایسی ذلت سے عزت کی موت بہتر ہے۔زیادتی کے شکاربچے کی ماں کے یہ لفظوں نے نہ صرف عرش کو ہلا دیا بلکہ انقلاب آزادی کو نئی دشا دی کہ قابض اب تمہارے درندہ صف جرائم پر بلوچ خاموش نہیں رہی گی۔
مظلوم بلوچ جہاں بھی آباد ہے ریاستی جبر کا شکار ہے۔ سندھ کے مرکزی شہر کراچی کے گڑاپ ٹاؤن میں صدیوں سے آباد بلوچوں کی زمینوں کو بحریہ ٹاؤن کے ہاوسنگ اسکیم کے نام پر ریاستی فوج کی سرپرستی میں قبضہ کیا جا رہا ہے،مگر انسانیت کے لیے آواز اُٹھانے والا کوئی نہیں،اب بلوچ،سندھی،پشتون،کشمیری،سرائیکی عوام کو مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ محاذ اور پالیسی کی ضرورت ہے۔
مقبوضہ بلوچستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ آئے روز ریاستی فورسز بچے،بچیوں،خواتین کو اغوا کر کے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں مگر ایسی ذلت آمیز خبریں،واقعات رپورٹ نہیں ہوتے جس سے دشمن فورسز اور دیدہ دلیری سے ایسی درندگیوں کو دھراتی ہے،ایسے تمام واقعات کا سامنے آنا اور ان کو دنیا کے سامنے لانے کی اشد ضرورت ہے، صرف ایک اور مثال گوادر سے13 اکتوبر2017 کو14 سال کے ایک کم عمر بچے کو فورسز نے اغوا کیا اور اپریل کے مہینے میں اسے پشین میں منظر عام پہ لایا گیا اور جیل بھیج دیا گیا۔ پاکستانی فورسز بلوچ بچوں کو سیکس سلیب کے طور پر استعمال کر رہی ہے،مگر مجال ہے کہ میڈیا یا انسانی حقوق کے ادارے اس حوالے لب کشائی کریں،کوئی آج تک پاکستانی فورسز کے تشدد خانوں سے بازیاب ہونے والے افراد کے بارے میں اس بحث کو نہیں چھیڑتا کہ اتنے عرصے سے وہ لوگ کہاں تھے ان کو کس جرم میں لاپتہ کیا گیا،یا کمسن بچوں کو سالوں سال کیوں سکس سلیب بنایا جا رہا ہے۔
اتنی ظلم و جبر شاید ہی اس جدید دور میں کہیں ہو، مگر انسانی حقوق کے اداروں،میڈیا کی خاموشی اور کمزور بلوچ خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہم ان جنگی جرائم کو دنیاا ور اپنے خطے میں سامنے لانے سے یکسر قاصر ہیں۔بلوچ آزادی پسندوں کو چائیے کہ اس حوالے سے مشترکہ پالیسی بنائیں،اور سفارتکاری کریں کیونکہ ایک ریاست کی آزادی بغیر سفارتکاری سے نہیں مل سکتی۔بیس سالوں سے جاری آزادی کی تحریک بنا سفارتکاری سے اپنی انرجی کھو رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ اس بشے چاروبچار کیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر بہت دیر ہو جائے اور ہم ہاتھ پہ ہاتھ درے رہ جائیں۔
ادارہ سنگر کی ماہ اپریل کی تفصیلی رپورٹ
یکم اپریل
۔۔۔ بلوچستان کے ضلع پنجگور میں پاکستانی فورسزنے آپریشن کیا، آپریشن کے دوران متعدد افراد حراست بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیئے گئے ہیں۔فورسز نے پنجگور کے علاقے کیلکور میں فوجی آپریشن کرتے ہوئے 6 نوجوانوں کو حراست میں لے لیا ہے جن کی شناخت اشرف ولد کْنر، واحد بخش ولد صدیق، صدیق ولد فقیر، صمد ولد گزو، رشید اور عیسٰی کے ناموں سے ہوئی ہے،مقامی ذرائع کے مطابق پنجگور کے علاقے کیلکور و گردونواح میں گذشتہ پانچ روز سے فورسز کی جانب سے عام آبادی پر آپریشن کیا جارہا ہے۔
۔۔۔ گذشتہ روز فورسز نے قلات کے علاقے سوراب میں آپریشن کرتے ہوئے 5 نوجوانوں کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
۔۔۔ پنجگور سے 15 اگست 2019 کو جبری طور پر گمشدگی کا شکار شاہ نظر آج بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا ہے۔شاہ نظر، جہانزیب بلوچ کا بھائی ہے جسے چند روز قبل سی ٹی ڈی نے کوئٹہ سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع گوادر سے چار سال قبل جبری گمشدگی کے شکار دو نوجوان آج بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں۔
دشت شولی کے رہائشی فدا احمد بلوچ اور شاہنواز بلوچ 12 اکتوبر 2017 کوجبری گمشدگی کا شکار ہوئے تھے۔ ان کے ہمراہ لاپتہ ایک اور نوجوان مسلم بلوچ تاحال بازیاب نہیں ہوسکا ہے۔
۔۔۔گچک اور گیشکور میں پاکستانی فوج کی یلغار،آپریشن شروع کیا گیا،بلوچستان کے علاقوں ضلع پنجگور اورضلع آواران میں پاکستانی فوج نے بڑے پیمانے پرآپریشن شروع کردیا۔ جاری آپریشن کے کمک کیلئے آٹھ ٹرک گاڑیوں اور دو بکتر بند گاڑیوں پر مشتمل اضافی نفری بھی علاقے میں پہنچ گئی ہے۔
تنک ندی کے مقام پرفوج نے دو نئی چوکیاں قائم کرکے علاقے میں کرفیو نافذ کردیا ہے۔جہاں گچک ٹوبہ اور تنک ندی کے پہاڑی اور میدانی علاقوں میں آپریشن کیا جارہا ہے۔جبکہ علاقہ مکین مکمل طور پر محصور ہیں۔
فوج کی بڑی نفری نے گیشکور کیمپ سے جنگل اور پہاڑوں کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے، گیشکور گرّاڈی کے مقام پر فوج نے ایک نیا چوکی بھی قائم کیاہے۔
۔۔۔ایرانی بارڈر کی بندش کیخلاف پنجگور وگوادرمیں احتجاجی مظاہرے، شاہراہ بند
بلوچستان سے ملحق ایرانی سرحد کی بندش کے خلاف پنجگور میں کاروباری افراد اور علاقہ مکینوں نے احتجاجاً شاہراہ کو بلاک کرکے ٹریفک کی روانی معطل کیا جبکہ گوادر میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
۔۔۔ماما قدیر کے 2بھتیجوں سمیت 5 نوجوان جبری طور پر لاپتہ کردیئے گئے۔
بلوچستان کے علاقے سوراب سے پاکستانی فورسز نے بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جدوجہد کرنے والے آئیکون ماماقدیر کے دو بھتیجوں سمیت پانچ نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما ماما قدیر بلوچ کے دو بھتیجوں محمد آصف ریکی، الہ دین ریکی ولد شبیر احمد ریکی سکنہ دمب سوراب کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیاگیا ہے۔مذکورہ نوجوانوں کے ہمراہ مزید تین نوجوانوں محمد عرفان ولد محمد حکیم ریکی، ذالقرنین ولد حاجی فرید ریکی سکنہ دمب سوراب جبکہ ایک نوجوان جس کی شناخت تاحال نہیں ہوسکی ہے، کو پاکستانی فورسز نے لاپتہ کردیا ہے۔
2 اپریل
۔۔۔ تمپ ضلع کیچ میں واقع بانک کریمہ کے گھر پر پاکستانی فوج نے حملہ کیا ہے۔ ان کے خاندانی ذرائع نے بتایا ہے کہ گھر کو توڑا گیا ہے
۔۔۔گوادر سے 13 اکتوبر 2017 کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری لاپتہ بچہ مسلم ولد بشام کو پشین سے منظرعام پر لگایا گیا ہے مگر اسے رہا کرنے کی بجائے جیل میں قید رکھا گیا ہے۔جس وقت مسلم کو گرفتار کیا گیا تھا اس وقت کی اس کی عمر محض 14 سال تھی۔
مسلم کو دو اور بچوں فدا ولد رحیم بخش اور شاھنواز ولد جلال کے ساتھ اٹھایا گیا تھا تینوں بچے شولی دشت ضلع کیچ کے رہنے والے ہیں اور انھیں 2017 کو گوادر سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا اور سنہ 2021 کو تینوں کو منظر عام پر لاکر دو بچوں کو رہا کردیا گیا جب کہ مسلم کو پشین میں جیل حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔
3 اپریل
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ کے تحصیل تمپ کے علاقے کلاہو میں سیکیورٹی فورسز کی آپریشن اور مختلف گھروں میں چھاپے مار کر دو نوجوانوں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔تمپ کے علاقے کلاہو میں واقعہ شہید حامد بلوچ کے گھر پر چھاپہ مار کر ان کے دو بیٹوں کو گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔جن کی شناخت طاہر اور بیبگر کے ناموں سے ہوئے ہیں، علاقہ مکینوں کے مطابق فورسز نے اسی علاقہ میں احمد نامی شخص کے گھر پر چھاپہ مارا اور گھر میں موجود خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کوہلو کے علاقے کاہان میں پاکستانی فوج نے دو افراد کو قتل اور دو کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
پاکستانی فوج نے آج کاہان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا جہاں کوڈی پیشی کے مقام پر فورسز اہلکاروں کی فائرنگ سے دو افراد جانبحق اور ایک شخص زخمی ہوا۔جانبحق ہونے والے افراد کی شناخت جندو اور ولی داد کے ناموں سے ہوئے ہیں، جبکہ زخمی شخص کی شناخت غلائند ولد جندو
کے نام سے ہوئی ہے۔ذرائع کے مطابق فورسز اہلکار زخمی شخص کو اس کے چچا زاد کے ہمراہ حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
5 اپریل
۔۔۔بلوچستان کے ضلع سبی کے علاقہ لہڑی میں پاکستانی فورسز نے ایک آپریشن میں 2 افراد کو قتل اور دو کو تشدد کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔
اتوار کے روز لہڑی کے علاقے میں فورسز کی بڑی تعداد نے آپریشن کے دوران فائرنگ کی جس سے دو افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جن کی شناخت عبدالحمید اور عبدالحلیم کے ناموں سے ہوئے ہیں۔علاقائی ذرائع کے مطابق عطاء اور ہزارو نامی دو نوجوانوں کو تشدد کے بعد فورسز اہلکار اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ فورسز اہلکار مال مویشی اور دیگر قیمتی سامان بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
۔۔۔کراچی سے بلوچ نوجوان شاعر فورسز کے ہاتھوں جبری طور پرلاپتہ ہوگیا۔نوجوان کی شناخت منصور آزاد کے نام سے ہوئی ہے جسے چند روز قبل گرفتاری بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔قریبی ذرائع کے مطابق منصور آزاد بلوچی زبان کے شاعر ہیں جنہیں 1 اپریل کو کراچی بسم اللہ ہوٹل سے گرفتاری کے بعد لاپتہ کیا ہے۔
6 اپریل
۔۔۔ لسبیلہ کے پہاڑی علاقے کنراج میں فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا ہے جس کی شناخت غلام نبی ولد میراجی مینگل کے نام سے ہوا ہے، تاہم قتل کے محرکات معلوم نہیں ہوسکے ہیں۔
۔۔۔بلوچستان کے ساحلی علاقے ضلع گوادر کے پہاڑی سلسلوں میں پاکستانی فوج نے آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔ سیاجی اور گردنواح کے پہاڑی سلسلوں میں فوجی آپریشن جاری ہے جبکہ گن شپ ہیلی کاپٹر شیلنگ کررہے ہیں۔ سیاجی اور دڑامب کے گردنواح کے علاقوں ہْر، لاغری کور، تلانگ کور، پوستو کور، تنک، کنڈہ سول، شے بلار سمیت گوادر کی جانب سے تلاپ کور، بگانی کور، پک کور، حاجی جمعہ ڈیم کور کے علاقوں میں فورسز اہلکار بڑی تعداد میں موجود ہیں اور کئی مقامات پر مورچہ زن ہیں۔
۔۔۔ کوئٹہ سے لاپتہ ہونے والے درزی جہانزیب قمبرانی کی نانی انتقال کرگئے۔مرحومہ اپنی نواسے کی بازیابی کے لئے کوئٹہ اور دیگر مقامات پر احتجاج میں بھی شریک رہی تھی۔یاد رہے کہ جہانزیب قمبرانی کو 3 مئی 2016 کی رات کوئٹہ میں گھر سے گرفتاری کے بعد لاپتہ کیا گیا تھا۔
۔۔۔ بلوچستان کے ضلع نوشکی سے دو سال قبل لاپتہ ہونے والا شخص آج بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا۔بازیاب ہونے والے اسفند یار ماندائی کو 2 سال قبل پاکستانی فورسز نے گرفتاری بعد لاپتہ کردیا تھا۔یاد رہے اسفند ماندائی کو 6 جنوری 2019 کو نوشکی سے گرفتاری بعد لاپتہ کردیا گیا تھا۔
7 اپریل
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کوہلو میں پاکستانی فوج نے بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے دو افراد کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔ کوہستان مری کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن کا آغاز کردیا گیا ہے جبکہ اس دوران دو افراد جلالو ولد نذر خان اور علی بیگ کو فورسز نے لاپتہ کر دیا۔فورسز نے دوران آپریشن مختلف علاقوں میں گھروں کو بھی نذر آتش کردیا ہے۔ذرائع کے مطابق مذکورہ خاندان کو اس سے قبل بھی فورسز کی جانب سے بربریت کا نشانہ بنایا گیا ہے اس سے قبل بھی جلالو کے دو بھائیوں کو بھی فورسز نے حراست میں لیا ہے اور ان کے مال مویشیوں کو لوٹا گیا۔
۔۔۔بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر سے پاکستانی فورسز نے کمسن طالب کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔گزشتہ رات پاکستانی فورسز نے گوادر کے علاقے نیاآباد میں چھاپہ مارکر ایک شخص کو حراست میں لے لاپتہ کردیا ہے۔حراست بعد لاپتہ ہونے والے نوجوان کی شناخت عامر ولد محمد رحیم سکنہ دشت ہسادی کے نام سے ہوئی ہے،جسکی عمر پندرہ سال ہے۔
یادرہے کہ ایک سال قبل عمر کے ولد اور اس کے بڑے بھائی یاسر کو بھی پاکستانی فوج نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا تھا اور طویل مدت تک لاپتہ ہونے کے بعد بازیاب ہوئے تھے۔
۔۔۔مند کے علاقے جلال آباد میں پاکستانی فوج کا گھروں کا گھیراؤ،بچوں پر تشدد،گھروں پر قبضہ۔
پاکستانی فوج نے بدھ کی صبح مند کے علاقے جلال آباد میں دھاوا بول کر حاجی تاج محمد اور حاجی شکور نامی شخص کے گھروں کا گھیراؤ کر لیا،اس دوران گھروں میں موجود تمام اشیاء کو فوجی ٹرکوں میں لاد کر آرمی کیمپ بھیجنے کے ساتھ وہاں موجود بچوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر گھروں پر قبضہ کر لیا ہے۔
8 اپریل
۔۔۔ ضلع کیچ کے علاقے مند گوک میں قابض پاکستانی فورسز کی آپریشن جاری ہے۔
جہاں فورسز نے بلوچ چاردار چاردیواری کو پامال کرکے کئی گھروں پر چھاپے مارے اور خواتین و بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ دوران آپریشن فورسز نے صالح محمد اور لشکران بلوچ نامی افرادکے گھروں پر چھاپہ مار کر خواتین اور بچوں کو شدید کا نشانہ بناکر ان سے انکی موبائل فون اور قیمتی ساز و سامان اپنے قبضے میں لے لئے۔
۔۔۔پاکستانی فورسز نے گچک میں آبادی پر دھاوا بول تین خواتین کو حراست بعد آرمی کیمپ منتقل کردیا ہے
جمعرات کی صبح گچک کے علاقے ٹوبہ میں آبادی پر دھاوا بول کر گھروں میں لوٹ مار کی اور تین خواتین کو حراست میں لے کر اپنے ساتھ لے گئے،پاکستانی فورسز ہاتھوں اغوا ہونے والے خواتین کی شناخت راج بی بی ولد پنڈوک بلوچ،نازل ولدمسافر بلوچ، کپوت ولدعوض بلوچ کے ناموں سے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ گچک و گرد نواع، ٹوبہ،سولیر،وادی مشکے،جھاؤ، میں کئی روز سے پاکستانی فوج کی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔
9 اپریل
۔۔۔ڈھائی سال قبل احمد وال ضلع نوشکے سے جبری لاپتہ احمد نواز ولد محمد اعظم طویل عرصے تک پاکستانی فوج کے عقوبت خانے میں بند ہونے کے بعد گذشتہ روز رہا کردیے گئے ہیں۔
۔۔پچھلے مہینے مند، بلوچ آباد سے پاکستانی فوج نے انیس ولد گھرام کو گھر سے اغوانما گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا تھا جسے کئی روز عقوبت خانے میں اذیت دینے کے بعد آج رہا کردیا گیا۔انیس گھرام اس سے قبل بھی چھ مہینے تک پاکستانی فوج کے عقوبت خانے میں بند رہے ہیں۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کے کیچ سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والا شخص بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا۔گوشندر بلیدہ سے ایک سال سے لاپتہ لیاقت ولد داد محمد بازیاب ہوگئے۔
11 اپریل
۔۔۔افغانستان کے سرحدی علاقے اسپین بولدک میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے چار بگٹی مہاجرین کو قتل کردیا۔
قتل کیے جانے والے افراد کی ن کی شناخت غلام نبی ولد ترونگ علی بگٹی، جنگی ولد درمان بگٹی، سکا ولد دین محمد بگٹی، امیر جان ولد روستم بگٹی کے ناموں سے ہوئی ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل بھی افغانستان، ایران میں بلوچ مہاجرین کو قتل کیا گیا ہے۔
13 اپریل
۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک جبکہ دو زخمی ہوگئے۔
ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت ساجد جبکہ زخمی ہونے والوں کی شناخت وحید سکنہ شاپاتان اور بلال سکنہ تسپ کے ناموں سے ہوئی ہے۔
ٍ14 اپریل
۔۔۔ذاکر مجید سمیت لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کیخلاف کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرہ
بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں منگل کے روز پریس کلب کے سامنے بلوچ لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
۔۔۔ایرانی بارڈر کی بندش کیخلاف تربت میں مظاہرین نے سی پیک شاہراہ بند کردی
بارڈر ٹریڈ ایکشن کمیٹی اورتربت سول سوسائٹی کی جانب سے ایرانی بارڈر کی بندش کے خلاف منگل کو علی الصبح ڈی بلوچ کے مقام پر سی پیک شاہراہ بلاک کیاگیا۔سی پیک شاہراہ کی بندش سے تربت گوادر،کراچی، تربت مند ایران ٹریفک معطل رہی اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔مظاہرین نے گوکدان ڈی بلوچ پر خیمہ لگاکر دھرنا دیا۔
۔۔۔کوئٹہ میں سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کے ہاسٹل سے ایک خاتون پروفیسر کی لاش برآمد ہوگئی ہے، سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شائستہ کی لاش یونیورسٹی ہاسٹل سے برآمد ہوئی ہے۔ڈاکٹر شائستہ کا تعلق کراچی سے بتایا جارہا ہے تاہم موت کی وجوہات تاحال معلوم نہ ہوسکی۔
۔۔۔جھاؤ پاکستانی فوج کا زمینی و فضائی آپریشن جاری،ایک بستی مکمل نذر آتش
پاکستانی فوج نے جھل جھاؤ کے کئی علاقوں کا گھیراؤ کرنے کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں آپریشن کا سلسلہ شروع کیا ہے۔جھل جھاؤ میں گابارو کے علاقے میں سامی میتگ(گاؤں) کے تمام گھروں کو پاکستانی فوج نے دوران آپریشن نذر آتش کر دیا ہے۔
جبکہ پہاڑی علاقوں میں تین گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ کی اطلاعات کے ساتھ کمانڈوز بھی ان علاقوں میں اُتارے جا رہے ہیں۔
16 اپریل
۔۔۔پاکستانی فوج نے زیر حراست نوجوان کو قتل کرنے بعد لاش ورثا کے حوالے کر دی
مقبوضہ بلوچستان کے تحصیل وادی مشکے اور گچک کے سنگم پر واقع علاقہ ٹوبہ میں آرمی نے اپنے قائم نئے چوکی میں ایک نوجوان اختر ولد رضا محمد کو بدھ کے روز آرمی کیمپ بلانے کے بعد حراست میں لے لیا۔
جب نوجوان گھر نہیں لوٹا تو خاندان کے لوگ دوسرے روز آرمی کیمپ گئے اور اختر کے حوالے فوجی اہلکاروں سے پوچھا، فورسز نے خاندان کے لوگوں کو حراساں کرنے کے بعد اختر بلوچ کی گولیوں سے چھلنی لاش ورثا کو دے دی۔
۔۔۔ بلوچستان کے علاقے جھل جھاؤ کے مقام پاہو سے6 افراد حراست بعد نامعلوم مقام منتقل کردیئے گئے۔حراست بعد لاپتہ کئے گئے افراد کی شناخت مولابخش ولد عمر جمل ولد عمر غلام نبی ولد بجار رحمو ولد کریمداد کے ناموں سے ہوگئی ہے ۔گذشتہ روز جھل جھاؤ گابرو اور سامی بازار سے 70 کے قریب گھرانے سیکورٹی فورسز نے نذرآتش کردیئے۔
18 اپریل
۔۔۔تربت سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں دو نوجوان لاپتہدونوں افراد کو 19 روز قبل پاکستانی فورسز نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ہے۔
لاپتہ کیے جانے والے نوجوانوں کی شناخت فیصل ولد علی محمد اور سہیل ولد رفیق کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
خاندانی زرائع کے مطابق دونوں نوجوانوں کو 19 روز قبل 31 مارچ کے دوپہر فورسز نے ایک چھاپہ کے دوران گرفتار کرکے اپنے ہمراہ لے گئے –
۔۔۔جھڑپ کے دوران یو بی اے کے تین سرمچار ساتھی شہید ہوئے جن میں کیمپ کمانڈر خالد عرف بیبرگ بلوچ، عمران عرف جلال بلوچ، بلال عرف ماجد بلوچ شامل ہیں۔
۔۔۔ضلع کیچ کے تحصیل دشت کے علاقے پنودی، کمبیل اور کاشاپ میں پاکستانی فورسز نے ایک اسکول سمیت آٹھ مقامات پر مزید نئی چوکیاں قائم کی ہیں یہ چوکیاں چند گز کے فاصلے پر قائم کیے گئے ہیں۔
دشت کمبیل میں بیلگ نامی کھیت میں ٹاور کے قریب چوکی قائم کی گئی ہے جب کہ ٹاور کے پیچھے بھی چند گز کے فاصلے پر ایک نئی چوکی لگائی گئی ہے جب کہ ایک اسکول پر بھی پاکستانی فوج نے قبضہ کرکے اپنی چوکی قائم کی ہے۔
۔۔ بلوچ ریپبلکن آرمی، سرباز بلوچ گروپ کے ساتھی علی دوست عرف شکاری نظام ولد شہید لال محمد کو 12 اپریل 2021 ایرانی سرحد سے متصل علاقے بگان میں فائرنگ کر کے شہید کردیا گیا۔
۔۔۔آواران کے 2رہائشی ایرانی بلوچستان میں قتل کردیئے گئے،ایرانی بلوچستان کے شہر سراوان میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے دو افراد کو قتل کردیا۔ ہونے والے افراد کی شناخت نوربخش ولد درویش اور صابر ولد شفیع محمد سکنہ جھاؤ آواران کے ناموں سے ہوگئی ہے۔
20 اپریل
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان پاکستانی فوج کی باڈر سیل کرنے کی وجہ سے چار بلوچ جابحق،ہزاروں لوگ پھنسے ہوئے۔
21 اپریل
۔۔۔پاکستانی فورسز نے پروم کے رہائشی شخص کو پنجگور سے حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا۔ حراست بعد لاپتہ ہونے والے شخص کی شناخت مقبول ولد محمد حیات سکنہ دز پروم کے نام سے ہوئی ہے۔ مذکورہ شخص کو فورسز نے گذشتہ روز پنجگور کے مرکزی بازار چتکان سے حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔
۔۔۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ میں پاکستانی فوج کے اہلکاروں نے ایک کمسن بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناکر بے ہوشی کی حالت میں پھینک دیا۔ بدھ کے روز آرمی کے اہلکاروں نے کیچ کے تحصیل ہوشاب سے 10 سالہ بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جس کے باعث اس کی حالت غیر ہوگئی، بچے کو بے ہوشی کی حالت میں تربت اسپتال منتقل کیا گیا۔بچے کی شناخت مراد امیر کے نام سے ہوئی ہے جو ہوشاپ گریڈ بازار کا رہائشی ہے۔ علاقائی ذرائع کے مطابق بچے سے زیادتی کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ جنگل کی لکڑیاں لینے گیا تھا۔
مقامی افراد نے واقعے کے خلاف احتجاج کرتے میں ہوشاپ میں شاہراہ کو بلاک کر دیا۔
22 اپریل
۔۔۔پاکستانی فوجیوں کے ہاتھوں کمسن مراد ولد امیربخش کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کے خلاف علاقے کی عوام سراپا احتجاج ہے۔
بڑی تعداد میں جمع ہونے والے احتجاجی مظاہرین نے ہوشاپ کی مرکزی شاہراہ کو بند کر رکھا ہے اور انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ذرائع نے خبر دی ہے پاکستانی فوج کا سہولت کار اور بدنام ریاستی آلہ کار ’ملابرکت‘ کے ذریعے متاثرہ بچے کے لواحقین پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ واقعے کی رپورٹ درج نہ کریں اور معاملہ رفع دفع کریں۔
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان کے ضلع قلات کے پہاڑی علاقوں میں پاکستانی فوج کی جانب سے آپریشن کا سلسلہ جارہی ہے۔ آپریشن کا آغاز گذشتہ رات کیا گیا جبکہ آج صبح فوج کی بڑی تعداد گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر مذکورہ علاقے میں پہنچی ہے۔
پاکستان فورسز نے بڈو ڈور، بْنڈی، سینکْری اور گوئربرات کے داخلی راستوں تک پیش قدمی کی ہے۔ فورسز اہلکاروں کے ہمراہ سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد کو بھی دیکھا گیا جو ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکار بتائے جاتے ہیں۔
۔۔۔خضدار کے علاقے کھنڈ ایریا میں نامعلوم افراد کی فائرنگ ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔ تاہم واقعے کے محرکات تاحال معلوم نہیں ہوسکے۔
۔۔۔ پنجگور کے علاقے وشبود میں دکان میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر مسلح چوروں کی فائرنگ سے ایک شخص زخمی ہوا ہے۔فائرنگ کے واقعے میں زخمی ہونے والے شخص کی شناخت عنایت ولد محمد کے نام سے ہوئی ہے۔
23 اپریل
۔۔۔ہوشاپ واقعے کے خلاف تربت اور کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرے
ہوشاپ میں گذشتہ روز کمسن بچے کے ساتھ کستانی فوجی اہلکار کی زیادتی کے خلاف آج کیچ کے مرکزی شہر تربت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ایک ریلی نکالی گئی۔کوئٹہ میں واقعے کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں طلباء اور دیگر افراد نے شرکت کی۔
۔۔۔پاکستانی فوج کے ساتھ نوشکی میں جھڑپ میں بی ایل ٹی سے وابستہ دو سرمچار’علی شیر بگٹی عرف جاوید ولد فوج علی بگٹی اور گل داد عرف جنید ولد شفیع محمد سمالانی‘شہید ہو گئے۔
25 اپریل
۔۔۔بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مقامی صحافی واحد رئیسانی جاں بحق ہوگئے۔ نامعلوم افراد کی فائرنگ سے روزنامہ آزادی کے رپورٹر و سب ایڈیٹر عبدالوحد رئیسانی جاں بحق ہوگئے۔
27 اپریل
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پشین سے ایک چھ روز پرانی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی ہے۔ شناخت احمد اللہ ولد باز گل کے نام سے ہوئی ہے۔
تاہم واقعہ کے محرکات معلوم نہ ہوسکے۔
29 اپریل
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان کے ضلع پنجگور سے پاکستانی فورسز نے ایک نوجوان کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔ پاکستانی فورسز نے 20 روز قبل پنجگور کے نواحی علاقے گوارگو سے حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہے جسکی شناخت صلاالدین ولد محمد یوسف سکنہ بونستان کے نام سے ہوئی ہے۔ فورسز نے نوجوان کو اس وقت حراست میں لے کر لاپتہ کردیا جو وہ دیگر دوستوں کے ہمراہ پکنک منانے جارہے تھے۔یاد رہے مذکورہ نوجوان کو اس سے قبل بھی فورسز نے سالم امید کے ہمراہ حراست میں لے کر لاپتہ کردیا تھا۔
بعدازاں سالم امید کو پاکستانی فورسز نے دوران حراست جعلی مقابلے میں قتل کرکے لاش پھینک دیا تھا جبکہ اس وقت صلاالدین کو چھوڑ دیا گیا جبکہ اب ایک بار پھر اسے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا گیا ہے۔
۔۔۔ کیچ کے علاقے مند سے چودہ مہینے قبل لاپتہ ہونے والے پرویز احمد ولد رسول بخش سکنہ گوبرد مند گذشتہ روز بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے۔
30 اپریل
۔۔۔گڈاپ ٹاؤن ملیر کراچی میں واقع ملک ریاض کی ہاؤسنگ اسکیم ’بحریہ ٹاؤن‘ انتظامیہ مقامی لوگوں کی زمینیں طاقت کے زور پر ہتھیا رہی ہے گذشتہ تین دنوں سے مسلسل مختلف دیہاتوں میں بھاری مشینری کے ساتھ یلغار کیا جارہا ہے۔بحریہ ٹاؤن کو پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور سول انتظامیہ کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔
۔۔۔پاکستانی فوج کی ڈیتھ اسکواڈ نے ضلع کیچ کے علاقے تمپ، دازن سے دو بچوں کو اغوا کرنے کے بعد فورسز کے حوالے کر دیا ہے۔ اپریل 27 کی رات کو مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے اسماعیل ولد داد کریم، سکنہ دازن اور منہاب ولد علی سکنہ دازن کو منگل کی رات اغوا کر لیا ہے۔عینی شاہدین کے مطابق نادل عرف نادلوک،منیر عرف منیروک،ظہور عرف ظہورک کی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے منگل کی رات دونوں بچوں کو اغوا کیا،اور خدشہ ہے کہ انکو پاکستانی فوج کے حوالہ کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ منہاب ولد علی کو دو دفعہ پہلے بھی لاپتہ کیا گیا تھا، اور شدید تشدد کے بعد بازیاب ہوا۔