شوکت بلیدی، ایک خاموش مگر متحرک کارکن! الوداع | جیئند بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
9 Min Read

جب کبھی آپ کسی ایسے شخص کو یاد کرنے لگتے ہیں جو اب اس فانی دنیا سے رخصت ہو چکا ہے اور وہ شخص آپ سے ایک تعلق کے بندھن میں بندھا ہوا ہوتا ہے تو ذہن کے افق پر بہت سے در وا ہونے لگتے ہیں۔ ہر در ایک الگ قصہ کہانی سنانے لگتا ہے۔ آپ اپنے ماضی میں کھو جاتے ہیں، خیالات کو کھوجنے لگتے ہیں اور اس تعلق کے تمام جزئیات کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ ایک پُرآشوب سیاسی محاذ کا بلوچستان، جس کی ہواؤں نے کبھی کبھی سانسیں جبر کے اندھیروں میں روک دی ہیں، ایسے میں ایک خونی منظر نامہ کا پورا عکس سامنے آتا ہے۔ آپ سوچنے لگتے ہیں کہ کس کس کو یاد کیا جائے، کس کس کی یادیں سنبھالی اور سمیٹی جائیں۔

مگر ایک بے لوث، اپنے مشن میں کمیٹڈ، اپنے وژن میں واضح اور اپنے سفر میں ہر دم رواں ساتھی کو یاد کرکے ان کے بارے میں کچھ لکھنا یا کہنا اندوہناک ہے۔ اس پُرآشوب دور میں جہاں ہر کسی کے کردار پر سوالیہ نشان کا ایک مارکہ چسپاں رکھا گیا ہے، غیر جانبداری کے ساتھ کسی ایسے فرد کی کردارنگاری کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے جو آپ کے نزدیک بے شک مہاکردار ہو، لیکن ضروری نہیں کہ اس پر اتفاقِ رائے ہو۔ اس لیے ایک فرد جب اپنے کسی فکری دوست کے متعلق کچھ کہنا یا لکھنا چاہے تو اسے واضح کرنا چاہیے کہ یہ محض اس کے ذاتی خیالات اور تعلقات کی نوعیت کا خاکہ ہیں۔

ہمارے دور کے سیاسی حالات میں کردارکشی ایک آسان ہتھیار کے طور پر ہر اُس سیاسی کردار کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے جس نے میدانِ عمل میں رہ کر کام کیا، جدوجہد کی اور اپنا سفر طے کیا۔ ہم نے ہمیشہ اپنے ہی ان دوستوں پر لب کشائی کی جنہیں ہم جانتے تھے، جو ہمیں کسی مرحلے میں پسند نہیں آئے یا جن سے ہمارا سیاسی یا ذاتی نوعیت کا اختلاف رہا۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی حلقے میں ہمیشہ ذاتی تعلقات کو فوقیت حاصل رہی ہے۔ کسی کی اچھائی یا برائی کا معیار اس کا نظریاتی کمٹمنٹ، سیاسی قد یا جدوجہد نہیں بلکہ پوشیدہ ذاتی تعلقات رہے۔

بہرحال یہ میرے ذاتی خیالات ہیں۔ ان پر تنقید کی گنجائش ہے اور انہیں مکمل طور پر رد کرنے کا اختیار بھی ہے۔

بلوچستان کی موجودہ سیاسی جدوجہد کے دوران بہت سے کردار آئے اور پردۂ سیمیں پر اپنے حصے کا کام کرکے چلے گئے۔ کچھ شہید ہوئے، کچھ حالات کے مارے جلاوطن ہوئے، کچھ کسی گوشے میں خاموشی سے گوشہ نشین بن گئے، کسی نے اپنے آدرش سے سرنڈر کیا لیکن کچھ بے بہا کردار آخر تک خاموشی سے کام کرتے رہے، کام کرتے کرتے کبھی نہیں تھکے، کبھی سر اٹھا کر کسی سے گلہ نہیں کیا اپنے حصے میں آئے ہوئے ہر کام کو بخوبی ادا کرنے کی چاہ میں اپنی جان سے گزرنے والے انہی انمول کرداروں میں سے ایک شوکت بلیدی ہیں۔ انہوں نے سفر کیا، کام کیا، جدوجہد کی، لیکن تھکے نہیں، رکے نہیں، مسلسل سفر میں رہے، مسلسل کام کرتے رہے۔ کبھی شکایت نہیں کی، کبھی حالات سے ہار نہیں مانی۔

شوکت بلیدی تحریک کے ان بے بہا کرداروں میں سے ایک تھے جنہوں نے میدان میں سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ لٹریچر کی اہمیت اور افادیت کو بھی اولین دور میں ہی پہچان لیا۔ وہ تحریک کے جزئیات میں لٹریچر کی اہمیت کے قائل تھے۔ توار اخبار کے ساتھ بھرپور معاون کی حیثیت سے اس وقت تک ساتھ نبھاتے رہے جب تک توار پر یک فکری نقطہ غالب نہیں آگیا۔ انہوں نے ذاتی طور پر سَنگَر میڈیا کا بیڑا اٹھایا۔ پہلی بار میں نے انہیں سنگر میگزین کے لیے ساتھیوں سے لکھنے لکھوانے کی منت سماجت کرتے دیکھا۔ یک و تنہا انہوں نے سنگر میگزین کو اپنے وجود سے پیوستہ بنا کر تحریک کی آبیاری کا ایک اہم جز بنا دیا۔ ہر ماہ ساتھیوں سے گزارش، منت سماجت اور دست بندی کرکے مواد اکٹھا کرتے، پھر ذاتی خرچے پر سنگر کو پبلش کرکے مارکیٹ میں لاتے۔

بعدازاں جب حالات ناسازگار ہوئے تو انہوں نے سنگر میگزین کو آن لائن بنانے کا فیصلہ کیا اور اسے نیوز ویب سائٹ کے سانچے میں ڈھال کر پہلی بار تحریک کے لیے ایک ایسے پلیٹ فارم کا آغاز کیا جو روزانہ کی بنیاد پر تحریک سے منسلک خبریں اور رپورٹس پیش کرتا تھا۔ سنگر ویب سائٹ پر مضامین اور آرٹیکل بھی شائع ہوتے تھے۔ میں نے کافی عرصہ سنگر ویب سائٹ کے لیے کام کیا۔ مجھے بااختیار بنا کر کبھی انہوں نے کسی مواد کے متعلق شکایت نہیں کی بلکہ ہمیشہ ایک شفیق دوست کی حیثیت سے حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ وقت کی سخت نزاکتوں اور حالات کی ستم ظریفی کے باعث جب سنگر میں کام کرنا مشکل ہوا تب بھی ہمارے تعلقات برادرانہ رہے۔ وہ ہمیشہ رابطہ کرتے، حال احوال پوچھتے، لکھنے کی ترغیب دیتے اور کام کرنے کا جذبہ بیدار کرتے۔ دوستوں کے متعلق دریافت کرتے اور ایک ایک دوست کا نام لے کر سلام بھیجتے۔

شوکت بلیدی کو میڈیا سے تعلقات بنانے کا ہنر بھی آتا تھا۔ انڈین میڈیا کے صحافیوں سے لے کر مختلف ممالک کے میڈیا نمائندگان تک ان کے روابط تھے۔ بعض اوقات ان کے ریفرنس سے پاکستان سے باہر کے میڈیا نمائندوں نے بھی مجھ سے مختلف رپورٹس اور واقعات کے حوالے سے رابطہ کیا۔ انہوں نے تحریک کی خاطر میڈیا سے تعلقات رکھنے پر زور دیا۔ شوکت بلیدی بطور سیاسی کارکن دیگر مظلوم اقوام سے رابطہ کاری اور یکجہتی کے ہمیشہ خواہاں رہے۔ کشمیری سیاسی کارکنوں سے ان کے قریبی تعلقات اور رابطے تھے۔ سنگر کا پلیٹ فارم قابض پاکستان کے زیرقبضہ کشمیر کے سیاسی کارکنوں کے لیے بھی ایک اہم منبر رہا۔

میرے ساتھ ہمیشہ رابطے کے باوجود انہوں نے کبھی اپنی بیماری کا ذکر نہیں کیا۔ کبھی کبھی ان سے مہینوں رابطہ منقطع رہتا اور پھر بات ہونے پر وہ سفر یا کام کی زیادتی کا کہہ کر بات ٹال دیتے۔ ہماری آخری ملاقات چند سال قبل ایک باہر ملک کے ہوٹل میں ہوئی۔ ہشاش بشاش شوکت بلیدی کے پاس دو ہی چیزیں تھیں باتیں کرنا اور ہنسنا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس متحرک فکری ساتھی کو یوں جلدی موت اپنے آغوش میں لے گی۔

آج جب میں اس اہم فکری دوست کو یاد کر رہا ہوں تو بلاشبہ اس کی پوری شخصیت میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہی ہے۔ شوکت بلیدی، جسے دوست "ڈان” کے نام سے پکارتے تھے، بلاشبہ اپنے مشن اور وژن میں ایک کمیٹڈ سیاسی کارکن تھے جنہوں نے تحریک کو پروان چڑھانے میں لٹریچر کی اہمیت اور نیوز ویب سائٹ کی ضرورت سب سے پہلے نہ صرف محسوس کی بلکہ عملی طور پر پیش بھی کی۔ ایک ایسا خاموش مگر متحرک کردار جسے دوستوں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا، اس کے دامن پر بے نام داغ لگائے گئے، اس کی کردارکشی میں کبھی ہاتھ ہلکا نہیں رکھا گیا لیکن شوکت بلیدی نے کبھی کسی غیر اہم امر کو اپنے مضبوط اور مستحکم سیاسی آدرش کے سامنے رکاوٹ نہیں بننے دیا۔

سب دشنام سہہ کر کام کرنے والے اس خاموش سیاسی سپاہی کو یاد رکھنا، اس کے افکار کو اپنانا اور لٹریچر کو اولیت دینا، یہی شوکت بلیدی کی روح کے ساتھ انصاف ہے۔ اے پیارے فکری سنگت! تحریک نے ہمیں یکجا کیا، دوست بنایا۔ تحریک کے ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے تمہیں الوداع کہتے ہیں۔

***

Share This Article