وفاقی حکومت کے ادارے پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے) کے عہدیداروں نے سانگھڑ میں قائم وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) بشیر میمن کی آئل اور گھی کی فیکٹری پر چھاپہ مارا اور پوچھ گچھ کی۔
بشیرمیمن کے خاندان کے ذرائع نے تصدیق کی کہ ضلع سانگھڑ کے علاقے شہداد پور میں پی ایس کیو سی اے نے ان کی فیکٹری پر چھاپہ مارا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی سول انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکاروں نے بھی سانگھڑ اور مٹھیاری میں بشیر میمن کے فارم لینڈ کا دورہ کیا۔
خیال رہے کہ بشیر میمن کا خاندان مختلف کاروبار سے منسلک ہے اور طویل عرصے سے زرعی شعبے سے منسلک ہے۔
پی ایس کیو سی اے کے عہدیداروں نے شہداد پور میں المجتبیٰ آئل اینڈ گھی ملز پر چھاپہ مارا اور فیکٹری کے لائسنس کے حوالے سے پوچھ گچھ کی جبکہ عملے نے بتایا کہ لائسنس کا معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے۔
رپورٹ کے مطابق عہدیداروں نے فیکٹرے کے عملے سے دیگر کئی سوالات پوچھے اور چلے گئے۔
بشیر میمن کے خاندانی ذرائع کا کہنا تھا کہ سول ایجنسی کے عہدیداروں نے ان کے فارم پر بھی چھاپہ مارا جہاں ان کے کیلے اور آم کے باغات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مزدور وہاں موجود تھے جن سے زمین کے حوالے سے تفصیلات پوچھی گئیں، جو 1973 میں ان کے دادا سے بشیر میمن کو منتقل ہوئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ زمین ان کے دادا نے خریدی تھی اور خاندانی ذرائع نے بتایا کہ بشیر میمن کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف وفاقی حکومت کے بارے میں انکشافات کے بعد یہ کارروائی کی گئی ہے اور مزید کارروائی کے خدشات ہیں۔
خیال رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے دو روز قبل وزیر اعظم اور حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ انہیں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا کیا گیا تھا۔
نجی ٹی وی‘جیو نیوز’کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان، ان کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم سے ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ بطور ایک ادارہ اپنی ساکھ خراب نہیں کرسکتے۔
انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے خلاف مقدمات بنانے پر دباؤ ڈالا جاتا تھا۔
بشیر میمن نے کہا تھا کہ شہباز شریف کے بیٹے اور کیپٹن (ر) صفدر سمیت دیگر مسلم لیگ (ن) رہنماؤں کے خلاف مقدمات کے لیے کہا گیا جبکہ مریم نواز کے حوالے سے تین مختلف اوقات میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ جب سوشل میڈیا پر خاتون اول کی تصویر سامنے آئی اور جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو اسکینڈل میں پریس کانفرنس کے معاملے پر مریم نواز کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے پر دباؤ ڈالا گیا تھا۔
سابق ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کرنے کا بہت دباؤ تھا اس کے علاوہ شہباز شریف، مریم اورنگزیب، حمزہ شہباز، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، جاوید لطیف، خرم دستگیر، پیپلزپارٹی سے خورشید شاہ، نفیسہ شاہ، مصطفیٰ نواز کھوکھر سمیت جو بھی حکومت کے خلاف بات کرتا تھا، اس کو پکڑنے اور اس کے خلاف انکوائری کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا تھا۔
بعدازاں وزیراعظم عمران خان، وزیرقانون فروغ نسیم اور معاون خصوصی شہزاد اکبر نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا جبکہ شہزاد اکبر نے بشیر میمن کو 50 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوا دیا تھا۔