وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے انکشاف کیا ہے کہ وزیر اعظم ہاو¿س میں وزیر اعظم عمران خان کے بعد وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب اور داخلہ شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم سے ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے زور ڈالا تھا۔
نجی چینل ‘جیو نیوز’ کے پروگرام ‘آج شاہزیب خانزدہ کے ساتھ’ میں گفتگو کرتے ہوئے بشیر میمن نے بتایا کہ پہلے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے صرف یہ کہا کہ آپ ہمت کرو آپ کرسکتے ہو۔
بشیر میمن نے بتایا کہ تب تک مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیس کی نوعیت کیا ہے اور کس کے خلاف ہمت کریں۔
انہوں نے بتایا کہ جب ہم شہزاد اکبر کے کمرے میں پہنچے تو انہوں نے بھی یہ بات کی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہاں میں ہم تینوں میں، شہزاد اکبر اور اعظم فروغ نسیم کے دفتر پہنچے۔
ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے بتایا کہ فروغ نسیم بھی آمادہ تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمات بننے چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کیس میں خود لڑوں گا۔
بشیر میمن نے کہا کہ ‘میں نے ان پر واضح کیا کہ ایف آئی اے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف مقدمہ دائر نہیں کرسکتی اور مقدمہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے’۔
ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ میرے مو¿قف پر وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم مل کر کر لیں گے، آپ اور ایف بی آر مل کرلیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے انکار کردیا اور بطور ایک ادارہ اپنی ساکھ خراب نہیں کرسکتے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ فروغ نسیم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بنوانا چاہتے تھے۔
بشیر میمن نے بتایا کہ انہوں نے فروغ نسیم پر واضح کردیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی ہدایت پر ہم تحقیقات کرسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اشفاق احمد آمادہ تھے کہ وہ اور آیف بی آر مل کر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کیس کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
ایف آئی اے کے سابق ڈی جی نے کہا کہ تین سال قبل ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں اوپن انکوائری کرالی جائے سب کچھ واضح ہوجائے گا۔
بشیر میمن نے بتایا کہ ملاقات کے چندماہ بعد شہزاد اکبر نے جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کے اہلخانہ کی ٹریول ہسٹری کے بارے میں مجھ سے پوچھا تھا لیکن میں نے مثبت جواب نہیں دیا تو شہزاد اکبر نے کہا کہ آپ چھوڑ دیں، آپ سے نہیں ہوگا۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے خلاف مقدمات بنانے پر دباو¿ ڈالا جاتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے بیٹے، کیپٹن (ر) صفدر سمیت دیگر مسلم لیگ (ن) رہنماو¿ں کے خلاف مقدمات کے لیے کہا گیا۔
بشیر میمن نے کہا کہ مریم نواز کے حوالے سے تین مختلف اوقات میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ جب سوشل میڈیا پر خاتون اول کی تصویر سامنے آئی اور جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو اسکینڈل میں پریس کانفرنس کے معاملے پر مریم نواز کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے پر دباو¿ ڈالا گیا۔
یہ طعنہ کس نے دیا تھا کہ دیکھیں نیب کو ایک فون کیا اور اگلے دن شہباز شریف گرفتار ہوگئے؟ سے متعلق سوال کے جواب میں ایف آئی اے سابق ڈی جی بشیر میمن نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا۔
بشیر میمن نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے مجھے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا حوالے دے کر کہا کہ کوئی بھی سرکاری محکمہ ان کے احکامات کو رد نہیں کرتا اور تم مجھے کہتے ہو کہ آئین اور قانون یہ کہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں نے وزیراعظم عمران خان پر واضح کیا کہ پاکستان میں جمہوریت جبکہ سعودی عرب میں بادشاہت ہے، یہاں عدالتیں آزاد ہیں جہاں ہمیں کسی کو گرفتار کرکے مقرر وقت میں عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے اور ساتھ ہی شواہد کی بنیاد پر کیس تیار کرنا ہوتا ہے’۔
بشیر میمن نے بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کرنے کا بہت دباو¿ تھا اس کے علاوہ شہباز شریف، مریم اورنگزیب، حمزہ شہباز، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، جاوید لطیف، خرم دستگیر، پیپلزپارٹی سے خورشید شاہ، نفیسہ شاہ، مصطفیٰ نواز کھوکھر سمیت جو بھی حکومت کے خلاف بات کرتا تھا اس کو پکڑنے اور اس کے خلاف انکوائری کرنے کا دباو¿ ڈالا جاتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کوئی گینگ نہیں ہے، ایف آئی اے کو قانونی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔
اس سے قبل ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے انکشاف کیا تھا کہ خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے کی وجہ سے انہیں مریم نواز کے سوشل میڈیا سیل کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت ملی تھی۔
معروف صحافی مطیع اللہ جان کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اس بات کی تائید کی تھی کہ انہیں شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز سمیت ان کے اہلخانہ اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماو¿ں کے خلاف مقدمات درج کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن انکار کی وجہ یہ تھی کہ میرے پاس انکوائریز نہیں تھی اور یہ صوبائی معاملہ تھا۔