میانمار: آنگ سان سوچی کو فوجی بغاوت کے بعد بہلی بار عدالت میں پیش کردیا گیا

0
221

میانمار کی سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کو ایک ماہ قبل فوجی بغاوت کے موقع پر حراست میں لے لیا گیا تھا۔ اب اس کے بعد سے پہلی بار انھیں ان کے وکلا نے دیکھا ہے۔

وکلا کے مطابق انھیں عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کیا گیا تھا اور بظاہر ان کی ‘صحت ٹھیک ہے۔‘ آنگ سان سوچی نے اپنے وکلا سے ملنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یکم فروری کو لگنے والے مارشل لا کے بعد سے انھیں ایک نامعلوم مقام پر قید کیا گیا ہے۔

پیر کو ایک بار پھر مظاہرین نے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کیا۔ ان کا مطالبہ آنگ سان سوچی کی رہائی ہے۔

میانمار کی سویلین رہنما کو دارالحکومت نیپیدا میں بغاوت کے بعد حراست میں لیا گیا تھا اور وہ اس کے بعد سے اب تک منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں۔

ان کے حامیوں اور بین الاقوامی برداری میں کئی لوگوں نے ان کی رہائی اور نومبر کے انتخابی نتائج کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے جس میں ا±ن کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔

آنگ سان سوچی پر الزام ہے کہ ان کے پاس غیر رجسٹرڈ واکی ٹاکیز تھے اور انھوں نے کووڈ قواعد کی خلاف ورزی کی۔ مگر ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ ان سے بات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ پیر کے روز پر ان پر دو مزید الزام عائد کیے گئے جن میں الیکشن کے دوران ’خوف پھیلانا‘ شامل ہے۔

فوجی رہنماو¿ں نے انتخابات میں وسیع پیمانے پر فراڈ کا الزام عائد کرتے ہویے اقتدار پر قبضے کا جواز پیش کیا مگر انتخابی کمیٹی نے ان دعووں کو مسترد کیا ہے۔

میانمار سے باہر اس بغاوت کی مخالفت کی گئی ہے اور فوج پر پابندیوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ پولیس نے میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرہ کرنے والے افراد پر فائرنگ کی ہے جس سے 18 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

یہ میانمار میں حالیہ بغاوت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں سب سے ہلاکت خیز دن رہا ہے۔

کئی شہروں بشمول ینگون، داوی، اور منڈالے سے پولیس کی جانب سے اصلی گولیوں اور آنسو گیس کے استعمال کے باعث ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے آئیں۔

یکم فروری کو فوج کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد کئی ہفتوں تک عمومی طور پر پرامن مظاہروں کے بعد سیکیورٹی فورسز نے سنیچر کو یہ پرتشدد کریک ڈاو¿ن شروع کیا تھا۔

آنگ سان سوچی سمیت دیگر اہم رہنماو¿ں کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر حراست میں رکھا گیا ہے۔

اتوار کو منظرِ عام پر آنے والی سوشل میڈیا فوٹیج میں مظاہرین کو پولیس کے حملوں سے بھاگتے ہوئے، سڑک پر عارضی رکاوٹیں کھڑی ہوتے، اور خون میں لت پت کئی لوگوں کو موقعے سے دور لے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔

اتوار کو پولیس کریک ڈاو¿ن کا دائرہ وسیع کر دیا گیا تھا کیونکہ فوجی عہدیدار سول نافرمانی کی تحریک کو کچلنا چاہتے ہیں جس میں ابھی تک کوئی نرمی نہیں آئی ہے۔

سنیچر کے روز سے پوری شدت سے شروع ہونے والے پولیس کریک ڈاو¿ن میں اس وقت توسیع کی گئی تھی، جب فوجی حکمرانوں نے ملک میں بڑے پیمانے پر، پرامن سول نافرمانی مہم کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم اس کے خاتمے کا ابھی تک کوئی امکان نہیں دکھائی دیتا۔

جب میں ینگون میں ہلیدان روڈ پر پہنچا تو ایک ایمبولینس میرے پاس سے گزری۔ میں نے سنا کہ ایک ادمی کو گولی مار دی گئی ہے۔

میں فوراً موقعے کی جانب بھاگا اور جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ رضاکاروں نے اسے پہلے ہی اٹھا کر ایمبولینس میں منتقل کر دیا ہے۔

میں نے سڑک پر خون اور گھر میں بنائی گئی ایک ڈھال اس کے ساتھ ہی پڑی دیکھی۔ گولی اس ڈھال کو چیرتی ہوئی نکل گئی تھی۔

کچھ منٹ بعد کئی مظاہرین نے سڑک پر قبضہ کر لیا اور اس علاقے کو ڈھالوں اور ٹھیلوں سے بلاک کر کے خود کو پولیس پر حملہ کرنے کے لیے تیار کرنے لگے۔

کئی مزید مظاہرین آ پہنچے، سڑک پر بیٹھ گئے اور نعرے بازی کرنے لگے۔ لوگ اس قدر تھے کہ میں مجمعے کے آخر تک نہیں دیکھ پا رہا تھا۔

دو لوگوں کو یہاں گولی مار کر ہلاک اور ایک کو شدید زخمی کر دیا گیا مگر لوگ یہاں سے پسپا نہیں ہوئے۔

اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس آفس نے مظاہرین کے خلاف تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے پاس ‘مصدقہ معلومات’ ہیں کہ کم از کم 18 لوگوں کو اتوار کو ہلاک کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 30 سے زائد لوگ زخمی ہوئے ہیں۔

ترجمان روینہ شمدسانی نے کہا: ‘میانمار کے لوگوں کو پرامن اجتماع اور جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کرنے کا حق ہے۔ غیر متشدد مظاہرین کے خلاف ہلاکت خیز قوت کے استعمال کا انسانی حقوق کی بین الاقوامی روایات کے تحت کبھی بھی جواز پیدا نہیں کیا جا سکتا۔’

سماجی کارکنوں اور طبی عملے کا کہنا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر ینگون میں کم از کم چار لوگ پولیس کی گولیوں، سٹن گرینیڈ اور آنسو گیس کے استعمال کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ہیں۔

مظاہرین پرعزم نظر آئے۔ ایک شخص نیان ون شین نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ‘اگر انھوں نے ہمیں دبایا تو ہم ابھریں گے۔ اگر انھوں نے حملہ کیا تو ہم دفاع کریں گے۔ ہم فوجی بوٹس کے آگے کبھی نہیں جھکیں گے۔’

ایک اور شخص ایمی کیاو¿ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ‘جیسے ہی ہم پہنچے تو پولیس نے فائرنگ شروع کر دی۔ انھوں نے وارننگ کا ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ کچھ لوگ زخمی ہوئے اور کچھ اساتذہ اب بھی پڑوسیوں کے گھروں میں روپوش ہیں۔’

کچھ مظاہرین کو پولیس وینز میں حراست میں لے جایا گیا۔

جنوب مشرقی شہر داوی میں سیکیورٹی فورسز نے ایک جلوس کو منتشر کرنے کے اقدامات کیے۔ اطلاعات ہیں کہ مظاہرین پر اصلی گولیاں استعمال کی گئیں۔ سماجی کارکنوں نے بی بی سی کو بتایا کہ شہر میں چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

پولیس نے منڈالے میں بھی ایک بڑے جلوس کے خلاف کریک ڈاو¿ن کرتے ہوئے واٹر کینن کا استعمال کیا اور ہوائی فائرنگ کی۔ بی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ وہاں ایک شخص مارا گیا ہے۔

دیگر جگہوں بشمول شمال مشرقی شہر لاشیو میں بھی مظاہرے ہویے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ مائیک، باگو اور پوکوکو سے بھی ہلاکتوں کی اطلاع سامنے آئی ہے۔

مظاہروں کے آغاز سے اب تک گرفتار ہونے والوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔ سیاسی قیدیوں کی معاونت کے لیے قائم ایک مانیٹرنگ گروپ اے اے پی پی نے یہ تعداد 850 بتائی ہے مگر بظاہر ہفتے کے اختتام پر سینکڑوں مزید افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ایشیا کے مختلف شہروں تائی پے اور ہانگ کانگ وغیرہ میں بھی میانمار کے مظاہرین کی حمایت میں احتجاج کیے گئے۔

بنکاک میں پولیس نے ان مظاہرین کے خلاف آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا جو میانمار میں لوگوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ تھائی وزیرِ اعظم کے استعفے کا بھی مطالبہ کر رہے تھے۔

میانمار کو برما بھی کہا جاتا ہے اور اس نے سنہ 1948 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔

اپنی جدید تاریخ کا زیادہ تر عرصہ اس نے فوجی حکومت کے تحت گزارا ہے۔

سنہ 2010 کے بعد سے پابندیوں میں نرمی کی گئی جس سے 2015 میں آزادانہ انتخابات ہوئے اور اگلے سال تجربہ کار اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی کی قیادت میں حکومت قائم ہوئی۔

سنہ 2017 میں روہنگیا برادری کے جنگجوو¿ں نے پولیس پوسٹس پر حملہ کیا جس کے جواب میں میانمار کی فوج اور مقامی بدھسٹ مشتعل گروہوں نے ہلاکت خیز کریک ڈاو¿ن کا آغاز کر دیا جس میں اطلاعات کے مطابق ہزاروں روہنگیا افراد ہلاک ہوئے۔ پانچ لاکھ سے زیادہ روہنگیا افراد سرحد پار کر کے بنگلہ دیش چلے گئے اور اقوامِ متحدہ نے اسے ‘نسلی طور پر صفایا کرنے کی واضح ترین مثال’ قرار دیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here