بھارت نے سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے نئے قواعد کا اعلان کیا ہے۔ مبصرین اسے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جانب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔
بھارتی حکومت کی جانب سے جمعرات کو جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نئے اقدامات کے تحت بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو شکایات کے اندراج کے لیے بھارت میں عملہ رکھنے کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ روابط کے لیے نئے حکام رکھنا ہوں گے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق یہ قواعد ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب ٹوئٹر نے حالیہ دنوں میں ہونے والے کسانوں کے احتجاج کے دوران حکومت کی جانب سے مواد ہٹائے جانے کے احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا تھا۔
بھارتی حکومت کا موقف ہے نئی ہدایات اس کے ڈیجیٹل میڈیا کے اخلاقیات کے ضابطے کے تحت ہیں تاکہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر ان کمپنیوں کا احتساب کیا جاسکے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد نے جمعرات کو سوشل میڈیا قواعد کے بارے میں صحافیوں کو بتاتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو زیادہ ذمہ دار اور جواب دہ ہونا چاہیے۔
روی شنکر کا مزید کہنا تھا کہ نئے قواعد کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں حکومت کی جانب سے قانونی احکامات آنے کے بعد اپنے پلیٹ فارمز سے متنازع مواد ہٹانے اور یہ مواد جاری کرنے والے کی شناخت ظاہر کرنے کی پابند ہوں گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ان ہدایات کی تفصیل جلد ہی شائع کی جائے گی اور یہ تین ماہ میں قابلِ عمل ہو جائیں گی۔
دوسری جانب ‘فیس بک’ کا کہنا ہے کہ وہ ان ضابطوں کا خیر مقدم کرتے ہیں تاکہ ویب پر موجود مسائل سے نمٹا جا سکے۔ فیس بک کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "ان ضابطوں کی تفصیل بہت اہم ہوتی ہے اور ہم ان نئے قوانین کا بغور مطالعہ کریں گے۔”
‘رائٹرز’ کے مطابق ٹوئٹر نے بھارت کے نئے سوشل میڈیا قواعد پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔