پاکستان کے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نےمیڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان ااسلام باد میں دھرنے پہ بیٹھے بلوچ لاپتا افراد کے لواحقین کی ایک تین رکنی نمائندہ کمیٹی سے مارچ میں ملاقات کریں گے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ایک ٹوئٹ میں شیریں مزاری نے کہا کہ انہوں نے آج اسلام آباد کے ڈی چوک میں احتجاج کرنے والے لاپتا افراد کے اہل خانہ سے ملاقات کر کے انہیں وزیر اعظم کا پیغام پہنچایا۔
انہوں نے حکومت کے اہلخانہ کو قانون سازی کے ذریعے لاپتا کیے جانے کے اس عمل کے خاتمے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ یہ عمل اب آگے بڑھ رہا ہے۔
اس کے ہمراہ ایک پریس ریلیز بھی جاری کی گئی جس میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے بتایا کہ انہوں نے وزیر اعظم کی ہدایت پر مظاہرین سے ملاقات کی اور تین نکات پر مشتمل ان کا پیغام پہنچایا، یہ نکات درج ذیل ہیں۔
وزیر اعظم شیریں مزاری کی جانب سے منعقدہ ایک ملاقات میں مارچ میں مظاہرین کی تین رکنی نمائندہ کمیٹی سے ملاقات کریں گے۔
مظاہرین لاپتا افراد کی ایک فہرست حوالے کریں گے تاکہ ان کی حیثیت کا پتہ چل سکے اور اجلاس سے قبل وزیر اعظم کو آگاہ کیا جا سکے۔
مزاری نے مزید بتایا کہ جن خاندانوں سے ان کی ملاقات ہوئی تھی انہوں نے درخواست کی کہ دھرنے میں موجود 13 خاندانوں کے لاپتہ افراد کو ترجیح دی جانی چاہئے۔
اس ہفتے کے اوائل میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں لاپتہ افراد کے دیرینہ مسئلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور متعلقہ حکام کو پارلیمنٹ میں فوری قانون سازی کی ہدایت کی گئی تھی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ موجودہ حکومت کے دور میں کوئی فرد لاپتا نہیں ہوا۔
ملاقات کے دوران شیریں مزاری نے وزیر اعظم کو بتایا تھا کہ لوگوں کی گمشدگی کو روکنے کے لیے ایک مجوزہ بل دو سال سے وزارت قانون کے پاس پڑا ہے لیکن اس پر کچھ نہیں ہورہا۔
وزیر اعظم نے مداخلت کرتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ بیٹھنے کو کہا اور متعلقہ قوانین میں ضروری ترمیم کے لیے متفقہ بل کی تجویز پیش کی۔