پاکستان کے وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے ‘لاپتا افراد’ کے معاملے کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ‘اس حوالے سے قانون سازی ناگزیر ہے’۔
وزارت انسانی حقوق کی ایک تقریب کے دوران ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے واضح طور پر وزیر قانون کو کہا ہے کہ جلد متعلقہ بل کو حتمی شکل دی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کا معاملہ قابل قبول نہیں، جمہوریت میں یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ لوگوں کو اٹھا کر لے جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ ‘لاپتا افراد کمیشن نے کام تو کیا ہے ریکوریز بھی ہوئی ہیں’۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں پاکستان وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ حکومت ملک میں کوئی لاپتا شخص نہیں چاہتی ۔اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے اس بیان پر کا خیرمقدم بھی کیا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں لاپتا افراد یا جبری گمشدگیوں کا معاملہ بہت سنگین ہے، ان افراد کے اہلِ خانہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے عزیزوں کو جبری طور پر سیکیورٹی ادارے لے جاتے ہیں اور پھر انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی متعدد مرتبہ اس معاملے پر آواز اٹھاتی اور لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔
اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی ہدایات پر وزارت داخلہ نے 2011 میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں 2 رکنی کمیشن قائم کیا تھا جس کے دوسرے رکن انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخوا ہیں۔
جنوری 2019 میں حکومت کی جانب سے ایک تاریخی فیصلہ سامنے آیا، جس کے تحت جو افراد، شہریوں کے اغوا میں ملوث ہوں گے ان پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی پی) کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
وزیر اعظم ہائوس سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کسی فرد یا تنظیم کی جانب سے جبری طور پر کسی کو لاپتا کرنے کی کوئی بھی کوشش کو جرم قرار دینے کے لیے پی پی سی میں ترمیم کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ جولائی 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے جبری گمشدگی کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ نامعلوم مقامات سے شہریوں کی گمشدگی اور اغوا میں ملوث شخص پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا کیمپ اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے جاری ہے اور کل بروزمنگل کو وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات نہ ہونے کے شرط پرڈی چوک پر دھرنادینے کا اعلان کیاگیاتھا۔
واضع رہے کہ وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری پہلے بھی لاپتہ افراد معاملے کوسنگین قرار دے چکے ہیں لیکن حال ہی میں قومی اسمبلی میں پی ٹی ایم کے محسن داوڑ اور بی این پی مینگل کے اختر مینگل نے لاپتہ افراد معاملے کو جرم قرار دینے اور اس حوالے قانون سازی کرنے کیلئے ایک بل پیش کیا تھا جسے محض دو منٹ میں پارلیمنٹ نے مسترد کردیا تھا۔جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے پیچھے جو قوت ہے وہ نہیں چاہتی کہ اسے مجرم قرار دیکر کٹہرے میں کھڑا کیا جائے کیونکہ وہ خود کو اس پاکستان کا اصل مالک اور اس طرح کے غیر انسانی و غیر قانونی عمل کو قانونی سمجھتا ہے ۔