بلوچستان میں پاکستانی فوج کی جنگی جرائم عروج پر- چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے

ایڈمن
ایڈمن
30 Min Read

……پاھار……
بلوچستان میں پاکستانی فوج کی
جنگی جرائم عروج پر
ماہ ِ جنوری میں 50سے زائد فوجی آپریشنز میں 35 افرادلاپتہ،
21افرادقتل،50سے زائد گھر نذر آتش

سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے


مقبوضہ بلوچستان میں حسب معمول ریاستی جبر کا سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر اپنی عروج پرہے۔جنوری2021 میں پاکستانی فورسز نے پچاس سے زائد ملٹری آپریشنز میں 35 افراد کو حراست میں لیکرجبری طور پر لاپتہ کیا۔ دوران آپریشنز پاکستانی فوج نے تین سو سے زائد گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ پچاس سے زائد گھروں کو نذر آتش کیا۔جبکہ ان آپریشنز کے دوران دس نئی فوجی چوکیاں قائم کرنے کے ساتھ ضلع کیچ کے علاقے گورکوپ اور بولان میں جنگلات کو نذر آتش کیا گیا۔
جنوری میں 21 لاشیں ملیں،جس میں گیارہ لاشیں ہزارہ کان کنوں کی تھیں جن کو پاکستانی فوج کے مذہبی شدت پسندوں نے قتل کیاتھا، جبکہ دو افراد کو کیچ میں پاکستانی فوج نے گولیوں سے بوند کر قتل کیاتھا،ایک بلوچ مادریں وطن کی دفاع میں شہید ہوا۔ایک لاش کی شناخت نہ ہو سکی جبکہ 6 لاشوں کے محرکات سامنے نہ آ سکے۔
جنوری کے مہینے میں جبری طور پر لاپتہ کئے گئے 23 افراد پاکستانی فورسز کی عقوبت خانوں سے بازیاب ہوئے، جس میں دس افراد2021 سے فورسز کی حراست میں تھے، چار افراد2020 سے،تین افراد2018 سے،چار افراد2019 سے،ایک شخص2016 سے اور ایک شخص2013 سے فورسز کی عقوبت خانوں میں قیدتھا۔
اس مہینے ضلع کیچ،ضلع آواران،بولان،ڈیرہ بگٹی اورپنجگور بدترین ریاستی جبر کا شکاکر رہے۔ مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی جبر کے ساتھ پاکستانی فوج کے لے پالک اسلامی مذہبی دہشت گردوں نے گیارہ ہزارہ کانکنوں کو قتل کیا۔
پاکستانی فوج کی جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب بلوچ قوم کو اپنی پیاروں کی لاشوں کو اپنی رسومات کے تحت بھی سپرد خاک کرنے نہیں دیا جاتا،ایک طرف مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی جبر عروج پر ہے تو اکیسویں صدی کے اس جدید دور میں بھی پاکستانی فوج کے کھلے عام روزانہ کی بنیاد پر بلوچ قوم کی نسل کشی،زمینی و فضائی آپریشنز پر مہذب دنیا کے دعویدار خاموش ہیں۔
بلوچ قوم پر جاری قابض ریاست کی بربریت پر دنیا کی خاموشی حیران کن ہے۔ شہید کریمہ بلوچ کی جسد خاکی کو کراچی سے اغوا کر کے بلوچ قوم کو اپنے لیڈر کی دیدار سے روکھنے کے ساتھ نماز جنازہ میں شریک نہیں ہونے دیا گیا،اور یہ عمل پوری دنیا نے سوشل میڈیا پردیکھاجو پاکستانی فوج کی جنگی جرائم کی عکاس ہے مگر پاکستان کی نام نہاد میڈیا اور انسا حقوق کے ادارے خاموش رہے۔
یقینا بلوچ قوم قابض کی ایسی وحشی پن کو نہیں بھول سکتی ہے اور جتنا تم ظلم و جبر کرو گے اتنی نفرت بڑھے گی،بلوچ کی اس نسل یا بچوں میں دشمن کے خلاف نفرت کا اندازہ سوشل میڈیا میں وائرل ایک بچی کی ویڈیو سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس طر ح پاکستانی فوج کو للکار رہی ہے۔
سنگین ریاستی مظالم کے باوجود بلوچ قوم کا دشمن کے سامنے سرنگوں نہ ہونا،خود کوایک زندہ قوم ثابت کرتی ہے اور یہی مزاحمت قوموں کی تعبیر کرنے کے ساتھ انکی مستقبل کا فیصلہ کر تی ہے۔
موجودہ دور میں بلوچ قوم کی دشمن ریاست کے خلاف آواز بلند کرنے کے عمل نے واضح کر دیا ہے کہ اب آزاد بلوچستان کو دنیا کے نقشے پر رونما ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ متحد ہو کر داخلی پالیسیوں کے ساتھ اپنی خارجہ و سفارتی پالیسی کو منظم کریں اور ایک منظم لایہ عمل طے کریں جس کے تحت وہ ہمسایہ ممالک سمیت دیگر عالمی قوتوں سے سفارتی تعلقات کے ساتھ ملکی سطح پر بات چیت کریں پھر وہ وقت دور نہیں کہ بلوچ اپنی سرزمین کا خود مالک بن جائے۔

ماہ جنوری
کی تفصیلی رپورٹ

یکم جنوری
۔۔۔بولان میں پاکستانی فورسز کا زمینی و فضائی آپریشن جاری
بولان کے متعدد علاقوں میں گذشتہ کئی روز سے پاکستانی فورسز کا زمینی و فضائی آپریشن جاری ہے جس کے نتیجے میں اب تک مختلف علاقوں سے متعدد افراد گرفتاری کے بعد لاپتہ ہوچکے ہیں جبکہ کئی علاقے تاحال فورسز کے محاصرے میں ہیں جس کی وجہ سے مقامی آبادی کو آمد و رفت کے سلسلے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بالخصوص مریضوں جن میں خواتین و بچے بھی شامل ہیں علاقے سے باہر علاج کے لئے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
گذشتہ روز بولان کے آس پاس کے علاقوں چیسن، پوڑ اور میاں کور میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کو شیلنگ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ جبکہ فورسز نے غربوگ سجاول کے وسیع جنگلات کو نذر آتش کردیا ہے۔
دوسری جانب شاہرگ سے دوران حراست میں لیے گئے 15 افراد کی شناخت ہوچکی ہے جن میں بابو شیر محمد ولد تاج محمد، عطائاللہ ولد شیر محمد، ملک منظور احمد ولد حاجی منیر احمد، طیب احمد ولد ملک منظور احمد، سعید احمد ولد نزید احمد، حفیظ الرحمٰن ولد عبدالرحمٰن، عزیز الرحمٰن، عبدالرازق ولد شیر زمان، نور محمد، صابر خان ولد غازی خان، علی محمد ولد ظفر خان، خالق داد ولد خیرا، منڈا ولد محمد امین، شیر احمد ولد کجیر خان، بابو دودا ولد بابو زر خان شامل ہیں۔
۔۔۔ گوادر: پولیس بلا وجہ ہمارے گھر والوں کو زد کوب کر رہی ہے، شمس خاتون
گوادر پریس کلب میں سی آئی اے انچارج پولیس کی زیادتیوں کیخلاف میر لال بخش وارڈ کی رہائشی خاتون شمس خاتون زوجہ امان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دن پہلے میرے بیٹے کو محلے کے چند لڑکوں نے زدکوب کیا تھا۔
۔۔۔قابض پاکستانی فوج کی کیلکور و گرد نواع میں فوجی نقل وحرکت
پنجگور کیلکور میں پاکستانی جنگی ہیلی کاپٹروں کی نیچی پروازیوں کے ساتھ فوج کی درجن سے زائدگاڑیاں کیکور کاشت پہنچ کر وہاں رہنے والے خانہ بدوشوں کو نقل مکانی کی دھمکی دے رہے ہیں۔انھوں نے کہاہے کہ پاکستانی فوج نے ایک ہفتہ کے اندرندی نالوں میں رہنے والے خانہ بدوشوں کو یہاں سے نکل مکانی کرنے کی وارننگ دی ہے۔
2 جنوری
۔۔۔ضلع پنجگور کے علاقے گرمکان میں پاکستانی فوج بابر یوسف اور حاجی عبدالحمید کے پر دھاوا،گھروں میں قیمتی اشیاء کا صفایا اور خواتین و بچوں کو حراساں کیا گیا۔
3 جنوری
۔۔ مچھ پاکستانی فوج کے مذہبی دہشت گردوں نے گیارہ ہزارہ کان کنوں کو قتل کر دیا۔
۔۔۔ضلع پنجگور کے علاقے کیل کور میں جاری فوجی آپریشن میں شدت کے ساتھ خدال،کاشت،بیرونٹ،کرکی سمیت کئی علاقوں میں لوٹ مار کے ساتھ خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پہاڑی علاقوں پر شیلنگ کی۔
4 جنوری
۔۔۔۔ضلع پنجگور میں پاکستانی فوج کے ساتھ جھڑپ میں سرمچار گنج بخش عرف بہار شہید ہوئے۔
۔۔۔ ضلع نوشکی کے علاقے ڈاک قبول کے قریب ڈھڈر سے مقامی انتظامیہ کو ایک نوجوان کی لاش ملی ہے جسے شناخت کے لئے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
نوجوان کی عمر 27 سال کے قریب ہے جس پر 8 گولیوں کے نشانات پائے گئے ہیں۔ تاہم اسکی شناخت ابھی تک ممکن نہیں ہوسکی ہے۔
5 جنوری
۔۔۔۔کریمہ بلوچ قتل: جرمنی اور فرانس میں مظاہرے
معروف بلوچ خاتون رہنماء اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی قتل کے خلاف جرمنی کے دارالحکومت برلن اور فرانس کے دارالحکومت پیرس میں کینیڈین سفارتخانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیئے گئے۔
جرمنی کے دارالحکومت برلن کے مصروف ترین علاقے میں واقعہ کینیڈین سفارت کے سامنے بلوچ نیشنل موومنٹ کی اپیل پر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا کر کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف نعرہ بازی کیا۔
بی این ایم جرمنی زون کے رہنماوں نے کینیڈین حکام سے مطالبہ کیا کہ کریمہ بلوچ کے قتل کی صاف شفاف تحقیقات کی جائے۔انہوں نے کہا کہ آج پورا بلوچستان سمیت دنیا کے تمام بلوچ انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں۔
۔۔۔پاکستانی فوج نے ڈیرہ بگٹی کے علاقے اچ سے آپریشن کے دوران خواتین اور بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بناکر چھ افراد کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔حراست بعد لاپتہ ہونے والوں کی شناخت بہارو ولد پائند بگٹی، کھنڈو ولد باری بگٹی، علی مراد ولد میندو بگٹی، لیاقت ولد یارا بگٹی، حیدر ولد یارا بگٹی اور انگلی ولد پھوگو بگٹی کے ناموں سے ہوئی ہے۔
6 جنوری
۔۔۔ سوراب میں پاکستانی فورسز نے چند دن قبل چھاپہ مار کر محمد شریف کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا جس کے گذشتہ اس کے دکان پہ بھی چھاپہ مار کر محمد شریف کے بیٹے سمیع اللہ کو بھی گرفتار کرکے لاپتہ کردیا۔
مقامی ذرائع کے مطابق گذشتہ روز سے پاکستانی فورسز نے سوراب کے متعدد علاقوں میں ناکہ لگایا جہاں درجنوں لوگوں کو کئی گھنٹوں تک روکے رکھا۔
7 جنوری
۔۔۔ضلع چاغی کے مرکزی شہر دالبندین کے قریب گذشتہ دنوں لاپتہ ہونے والے ایک نوجوان کی لاش ملی ہے۔
نوجوان چار دن پہلے گھر سے پکنک منانے کیلئے نکلا تھا اس کے بعد واپس گھر نہیں پہنچا، آج پہاڑی علاقے سے ان کی لاش برآمد ہوئی ہے۔لاش کی شناخت دالبندین کے رہائشی محمد انور کے نام سے ہوئی ہے۔حکام نے نوجوان کے قتل کے محرکات کے حوالے سے تاحال کچھ نہیں بتایا ہے۔
۔۔۔سوراب سے پاکستانی فورسز کی ہاتھوں گرفتاری بعد لاپتہ ہونے والے محمد شریف اور ان کے بیٹے سمیع اللہ بلوچ جبری طور پر لاپتہ ہونے کے بعد آج بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
محمد شریف اور سمیع اللہ کو چند روز قبل فورسز نے سوراب سے گرفتاری کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا تاہم آج باپ بیٹے دونوں بازیاب ہوگئے۔
9 جنوری
۔۔۔بلوچستان کا کمسن طالب علم راولپنڈی سے لاپتہ
سترہ سالہ آٹھویں جماعت کا طالب علم پچھلے دو دنوں سے لاپتہ ہے
سترہ سالہ بشیر احمد جو انٹرنیشل پبلک اسکول ڈھوک کالا خان روالپنڈی میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم ہے اور خضدار کا رہائشی ہے گذشتہ دو دنوں سے لاپتہ ہونے کے دو دن بعد کراچی سے بازیاب ہوا۔ 10جنوری
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے پروم میں گذشتہ رات گئے دیر بڑی تعداد میں پاکستانی فورسز کا کاروباری شخصیت ملک میران کے گھر پر چھاپہ۔ جبکہ پنجگور میں تسپ میں بلوچی زبان کے شاعر کے گھر چھاپہ مارکر خواتین و بچوں کو ہراساں کیا گیا۔
پاکستانی فورسز نے گذشتہ رات دو بجے کے قریب ملک میران کے گھر پر چھاپہ مار کر گھر کی تلاشی لی، دوران تلاشی فورسز نے ملک میران کی گاڑی بھی اپنے ہمراہ لے گئے۔
جبکہ گذشتہ روز پاکستانی خفیہ اداروں کے حمایت یافتہ گروہ نے پنجگور کے علاقے بونستان میں بلوچ نیشنل مومنٹ کے رہنماؤں و بلوچ صحافی کے گھر پر حملہ کرتے ہوئے خواتین و بچوں کو زدکوب کیا تھا۔
پاکستانی فوج نے بلوچی زبان کے شاعر کے گھر چھاپہ مارکر خواتین و بچوں کو ہراساں کیا گیا۔ پنجگور کے علاقے تسپ میں شاعر سرور فراز کے گھر پر چھاپہ مارکر، اہلخانہ کو زد و کوب کیا گیا۔
واضح رہے کہ ان دنوں پنجگور میں پاکستانی فورسز کی بربریت اور پرتشدد کارروائیاں تواتر سے جاری ہیں۔ گذشتہ روز بی این ایم کے چیئرمین خلیل بلوچ کے گھر چھاپہ مار کر چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا۔
علاوہ ازیں دو دن قبل بھی بی این ایم رہنما کے رہنما ایوب اسرار اور بلوچی صحافی و کالم نگار سفرخان بلوچ کے اپنے اور رشتہ داروں کے گھروں ریاستی پشت پناہی میں چلنے والی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے دھاوا بول کر لوگوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی،جبکہ سیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب فورسز کی حالیہ کارروائیوں کی شدید مذمت بھی کی گئی ہے۔
12 جنوری
۔۔۔تمپ کے رہائشی، بلوچ یکجہتی کمیٹی کا سرکردہ کارکن جلال بلوچ کو کراچی جاتے ہوئے پاکستانی فوج نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔
جلال بلوچ العثمان کوچ کے ذریعے تمپ سے کراچی جارہے تھے جنہیں حب چوکی کے مقام پر پاکستانی فوج نے چیک پوسٹ سے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔
13 جنوری
۔۔۔بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے گریشہ زباد سے جبری گمشدگی کا شکار ہونے والا نوجوان بازیاب ہوگیا۔ دوران حراست تشدد کے باعث نوجوان کی ذہنی اور جسمانی صحت متاثر ہوئی ہے۔
گریشہ زباد سے لاپتہ طالب علم محمد اعظم ولد داود کو 13 جون 2020 کو گریشہ زباد سے لاپتہ کیا گیا۔علاقائی ذرائع کے مطابق محمد اعظم کے ہمراہ دیگر کئی افراد کو بھی پاکستانی فورسز نے حراست میں لینے کے بعد اپنے ساتھ لے گئے، جنہیں بعد ازاں عید الحضٰی سے ایک دن پہلے رہا کیا گیا لیکن محمد اعظم کو رہا نہیں کیا گیا۔ طالب علم محمد اعظم کو پاکستانی فورسز نے ریاست مخالف وال چاکنگ کے شبہ میں حراست میں لیا تھا۔ جنہیں آج آٹھ مہینے بعد رہا کردیا گیا۔
دوران حراست محمد اعظم پر تشدد کے باعث جسمانی اور ذہنی حوالے سے برے اثرات پڑے ہیں جبکہ وہ کافی کمزور ہوچکا ہے۔
۔۔۔۔۔ کوئٹہ کے علاقے برمہ ہوٹل ملک پلازہ کے قریب واقعہ قبرستان سے ایک لاش برآمد ہوئی ہے، لاش کی شناخت محمد ظریف ولد عبد العلی کے نام سے ہوئی ہے جسکی گردن کاٹ کر قتل کیا گیا۔تاحال واقعے کے محرکات معلوم نہیں ہوسکے ہیں۔
۔۔خاران کے رہائشی شخص کا لاش خضدار سے برآمد
خضدار علاقے کانک سے دو دن قبل لاپتہ ہونے والے شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے۔برآمد ہونے والے لاش کی شناخت زبیر احمد ولد محمد اکبر محمد حسنی کے نام سے ہوئی ہے جو خاران کا رہائشی بتایا جاتا ہے۔ذرائع کے مطابق مذکورہ شخص دو روز قبل حب چوکی سے خضدار آیا تھا جبکہ خاندانی ذرائع کے مطابق وہ دو دن سے لاپتہ تھا۔
اسپتال ذرائع کے مطابق زبیر کا قتل گلہ کاٹ کر کیا گیا ہے۔تاہم قتل کے محرکات معلوم نہیں ہوسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔ کیچ کے علاقے گورکوپ ایک بار پھر فوجی آپریشن کی زد میں ہے اور علاقے میں اس وقت بڑی تعداد میں فوجی دستے تعینات ہیں جبکہ پیدل فوجی دستوں کی مدد کے لئے علاقے میں صبح سے گن شپ ہیلی کاپٹروں کی پروازیں بھی جاری ہیں۔
14 جنوری
۔۔کوئٹہ سے پاکستانی فوج نے طالب علم بلوچ خان ہجوانی کو حراست بعد لاپتہ کر دیا ہے۔
۔۔۔تمپ کے رہائشی، بلوچ یکجہتی کمیٹی کا سرکردہ کارکن جلال بلوچ کو کراچی جاتے ہوئے پاکستانی فوج نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا تھا جو آج بازیاب ہوئے۔
15 جنوری
۔۔۔جمعہ کے روز بھی ضلع کیچ کے علاقے گورکوپ میں بڑے میں پیمانے پر فوجی آپریشن جاری ہے آپریشن میں پیدل فوجی دستوں سمیت گن شپ ہیلی کاپٹرز بھی حصہ لے رہے ہیں۔ کیچ کے علاقے گورکوپ کو جمعرات کے روز پاکستانی فوج نے گھیرنا شروع کیا۔
علاقے میں اس وقت بڑی تعداد میں فوجی دستے تعینات ہیں جبکہ پیدل فوجی دستوں کی مدد کے لئے علاقے میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی پروازیں بھی جاری ہیں۔
۔۔۔ضلع کیچ کے علاقے کوہاڈ میں پاکستانی فوج نے چھاپہ مار کر شیر جان ولد تاج محمد اور عثمان کو حراست میں لے کر لاپتہ کر دیا ہے۔
۔۔۔واشک کے علاقے بسیمہ سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں ایک سال قبل لاپتہ ہونے والا علی بخش ولد برات بازیاب ہو کر اپنے گھر پہنچ گیا ہے۔
16 جنوری
۔۔ایک سال قبل پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والا نوجوان ضلع کیچ سے بازیاب ہو گیا ہے۔
فورسز ہاتھوں لاپتہ ہونے والا نوجوان نواز بلوچ ولد دوستین سکنہ مند بازیاب ہو گیا ہے واضح رہے انکو فورسز نے ایک سال قبل حراست بعد لاپتہ کیا تھا۔
17 جنوری
۔۔۔پاکستانی عقوبت خانوں سے لاپتہ نوجوان بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا
نوجوان ناصر حسین کو پاکستانی خفیہ ادارے کو اہلکاروں نے 20 جون 2018 کو بلوچستان کے علاقے بلوچ کالونی حب چوکی سے لاپتہ کئے تھے۔
ناصر حسین بلوچستان کے علاقے جھاؤ کے رہائشی ہے۔ جو آج بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچے ہے۔
۔۔۔کیچ کے علاقے گورکوپ میں پاکستانی فوج کا آپریشن جاری،صالح محمدولد براہیم سکنہ رنگاں گورکوپ حراست بعد لاپتہ،آج فوج نے سالاچ،سور،رنگاں،سیاہ ماری،گرئے بْن اورناگ نامی علاقے اور گردونواح میں نیکسال،براہیم،جمعہ، صالح محمد سمیت متعددلوگوں کی دو درجن سے زائد گھروں نذر آتش کردیا،ناگ،بکسراں،کروچی،سالاچ،ہوکینی میں 5نئے چوکیاں قائم۔جمک،لنجی،سہررودی،نیامی کلگ،سری کلگ میں کلگ کؤر،گورکوپ میں دمس کؤر،گورکوپ اورجنگلاآبادمیں ندیوں میں پیش (مزری)کے وسیع جنگلات کو نذرآتش کردیا۔ان جنگلات نہ صرف ماحول اورایکوسسٹم کا لازمی جزو ہیں بلکہ لوگوں کی زندگیاں ان بڑی حدتک انحصارکرتاہے۔
18 جنوری
۔۔۔کیچ کے علاقے گورکوپ میں آپریشن جاری،دو روز قبل گورکوپ کے علاقے جتاندر سے عیسٰی ولد سردو نامی مقامی چرواہا کو پاکستانی فوج نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا۔
۔۔۔آواران کے علاقے جھاؤ سے یکم اپریل 2019 کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں گرفتار و لاپتہ ہونے والے سدیر ولد خیر محمد، نادل ولد خیر محمد، زبیر احمد ولد محمد ہاشم سکنہ کوہڑوجھاؤبازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
۔۔۔کیچ کے علاقے بلیدہ، جاڑین اورزامران میں عبدوئی،پگنزان میں پاکستانی زمینی فوج کاآپریشن،لوگوں پر تشدد،تیل کے کاروبار پرسے منسلک لوگوں خاص طورپرنشانہ بن رہے ہیں اورجاڈین سمیت گردونواح شدید فی محاصرے میں ہیں،زمینی فوج کو گن شپ ہیلی کاپٹروں کی کمک بھی حاصل ہے،کئی مقامات پر ہیلی کاپٹرں نے شیلنگ کی ہے۔
۔۔۔ضلع کیچ کے علاقے گورکوپ میں پاکستانی فوج کا آپریشن جاری، متعدد گھر نذر آتش، مختلف مقامات پر نئی چوکیاں قائم۔
کیچ کے علاقے گورکوپ میں مختلف علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کے دوران سالاچ میں صالح محمد نامی شخص کے گھروں کو سمیت متعدد لوگوں کے گھروں نذر آتش کیے گئے۔
کروچی ڈاچ اور بکسر زیارت میں چیک پوسٹیں جبکہ ریسو تا گودر کے پہاڑوں پر چوکیاں قائم کی گئی ہیں۔ اور ترینگل ڈاٹ کے علاقے میں بھی فوجی گاڑیوں کی غیر معمولی گشت جاری ہے۔
۔۔۔ضلع کیچ کے علاقے گورکوپ میں پاکستانی فوج کا آپریشن جاری ہے۔ دوران آپریشن کئی افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے جس میں ایک کی شناخت جمعہ ولد ابراہیم سے ہوئی ہے جو چرواہا ہے۔
19 جنوری
۔۔۔کیچ:مسلح افراد کاطلبا رہنماکے گھر پر دھاوا، خاندان کے افراد پر تشدد
کیچ میں مسلح افرادنے بی ایس او کے سابقہ جنرل سیکٹری زبیر بلوچ کے گھر پر دھاوا بول کر خاندان کے افراد کو تشدد کو نشانہ بنایا اور گھر میں تھوڑ پھوڑ کی-
علاقائی زرائع کا کہنا ہیکہ مذکورہ مسلح افراد کو ریاستی حمایت حاصل ہے۔
20 جنوری
۔۔۔۔ بلیدہ کے مختلف علاقوں سے فوجی آپریشن کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔گزشتہ دو روز سے بلیدہ کے علاقے جاڈین مکمل فوجی محاصرے میں جبکہ پہاڑی علاقوں فوجی آپریشن جاری ی ہے۔
21 جنوری
۔۔۔پاکستانی فوج کے ہاتھوں 2جون 2020کوکراچی سے لاپتہ ہونے والے اورنگزیب ولد سراج احمد سکنہ پنجگور بازیاب ہوگئے۔
۔۔۔مچھ سے 2 مہینے قبل پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے خیر محمد مری بازیاب ہوگئے۔
۔۔۔گورکوپ سے 19جنوری کوپاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ صالح محمدولد براہیم سکنہ رنگاں گورکوپ بازیاب ہوگئے۔
24 جنوری
۔۔۔گورکوپ و بلیدہ میں فوجی آپریشن تاحال جاری، متعدد علاقوں میں مورچے قائم
کیچ کے علاقے گورکوپ و بلیدہ میں فوجی آپریشن تاحال جاری، پاکستانی فوج نے متعدد مقامات پر نئے چوکیاں قائم کئے ہیں۔
گورکوپ کے علاقے بکسر اور ریسو میں پاکستانی فوج نے نئے چوکیوں بنالیے ہیں اور بڑی تعداد میں فوجی دستوں کی نقل و حرکت جاری ہے۔ بیجا پوچھ گچھ اور تضحیک کے باعث مقامی آبادی کو سخت ذہنی اذیت کا سامنا ہے۔دوسری جانب بلیدہ کے علاقے جاڑین میں بھی فوجی آپریشن تاحال جاری ہے۔
25 جنوری
۔۔۔ پنجگور کے علاقے تسپ کے علاقے گومازین ڈیم سے اسد ولد منیرنامی شخص کالاش برآمد، تاہم قتل کے محرکات معلوم نہیں ہوسکے۔
26 جنوری ۔۔بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی میں فش ہاربر جیٹی کے احاطے سے ایک شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے۔
انتظامیہ کے مطابق نامعلوم لاش کو آر ایچ سی پسنی منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ اب تک لاش کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔.
۔۔۔کوہلو: چار افراد گرفتاری کے بعد لاپتہ
لیویز فورسز نے کوہلو کے علاقے تمبو میں چھاپہ مار کر 4 افراد کوگرفتار کرلیا۔ گرفتار ہونے والے افراد کو بعد میں خفیہ اداروں کے تحویل میں دیئے جانے کی اطلاعات ہیں۔
گذشتہ روز بلوچستان کے ضلع کوہلو تحصیل تمبو وزیر ہان شہر میں چھاپہ مار کر شیرانی قبیلے کے 4 افراد جن میں جان میر، شاہ میر، سہراب خان اور افغان شامل ہیں، کو گرفتار کرلیا۔
لیویز کے ہاتھوں گرفتار و بعد ازاں لاپتہ ہونے والے افراد کا تعلق ہرنائی سے بتایا جا رہا ہے۔
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان کے علاقے بولان میں آج صبح پاکستانی فوج کی جانب سے آپریشن کا آغاز کیا گیا، آپریشن میں زمینی فورسز کو ہیلی کاپٹروں کی مدد حاصل ہے۔
اطلاعات کے مطابق بولان اور ہرنائی کے مختلف علاقوں بزگر، جمبرو، کمان اور گردنواح میں پاکستانی فورسز نے پیش قدمی کی ہے جبکہ اس دوران دو گن شپ ہیلی کاپٹروں کو مختلف مقامات پر شیلنگ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
27 جنوری
۔۔۔بلوچستان کے علاقے بولان میں گذشتہ روز پاکستانی فورسز نے فوجی آپریشن کا آغاز کیا جو آج دوسرے روز بھی جاری ہے۔
بق فوجی آپریشن کو بزگر، اْچ کمان، سجاول اور گردونواح کے تک وسعت دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق فورسز بھاری نفری مذکورہ علاقوں میں پیش قدمی رہی ہے جبکہ انہیں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی کمک حاصل ہے۔گذشتہ روز گن شپ ہیلی کاپٹروں کو مختلف مقامات پر شیلنگ کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان:پاکستانی فورسز ہاتھوں لاپتہ ہونے والے ۶ افراد بازیاب
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے چھ لاپتہ افراد بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے ہیں۔
بازیاب ہونے والوں میں 18 نومبر 2019 کو جت دشت سے بلوچی زبان کے شاعر عبید عارف، 25 نومبر 2018 کو پسنی سے لاپتہ ہونے والاامین شکاری اور ڈھائی سال قبل دشت مزن بند سے لاپتہ امام اسحاق شامل ہیں۔
عرفان امام بخش سکنہ بلنگور، واحد داد شاہ سکنہ سامی گلگ اور منظور حسین سکنہ میناز بلیدہ بازیاب ہوئے۔.
28 جنوری
۔۔۔گورکوپ میں فوجی آپریشن میں تیزی کے ساتھ زامران کے مختلف علاقوں میں بڑی تعداد میں فوج کی نقل و حرکت کے ساتھ آپریشن کی تیاری جاری ہے۔
عبدوئی،پگنزان میں پاکستانی زمینی فوج کی نقل وحرکت میں اضافے کے ساتھ لوگوں کو تین روز تک گھروں میں رہنے اورتیل کی کاروبار کرنے والے لوگوں کو بھی خبردار کیا گیا ہے کہ وہ تین دن تک اپنے گھروں میں رہنے کے ساتھ کسی بھی قسم کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں۔
کیچ کے علاقے گورکوپ میں جاری آپریشن میں مزید شدت لائی لائی گئی ہے اور بڑی تعداد میں فوجی دستے حصہ لے رہے ہیں جبکہ علاقے میں تازہ دم فوجی دستے پہنچ رہے ہیں۔
پاکستانی فوج نے سری کلگ میں کلگ کور، دمس کور اور جنگل آباد کے علاقے میں متعدد ندیوں کے وسیع جنگلات کو نذرآتش کردیا ہے۔فوج نے پہاڑی علاقے جنگل آباد اور رنگاں کور نامی ندیوں کے دہانے پر نئی چوکیاں قائم کی ہیں۔
29 جنوری
۔۔۔ضلع خاران سے پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والا بابو حسن جان 7 سال کی جبری گمشدگی کے بعد آج بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا۔
۔۔۔ کوئٹہ سے جبری گمشدگی کا شکار ثناء اللہ سمالانی بھی بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا ہے۔
۔۔۔بلوچستان: مختلف علاقوں سے مزید چار لاپتہ افراد بازیاب
تحصیل تمپ کے علاقے کوہاڈ سے لاپتہ دو نوجوان عزت ولد خورشید اور مہران ولد رسول بخش جبکہ ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت کے علاقے آپسر سے گذشتہ دو سالوں سے لاپتہ شریف ولد سلیمان اور گلاب ولد علی بخش بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں۔
31 جنوری
۔۔۔تربت میں فورسز کی فائرنگ سے 2 افراد ہلاک ہوگئے
بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے بلیدہ زامران جانے والے روڈ پر فورسز کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ذرائع بتاتے ہیں کہ اینٹی نارکوٹکس فورس کیچ نے گرک ندی کے مقام پر فائرنگ کرکے دو افراد کو ہلاک کیا جو باپ بیٹے بتائے جاتے ہیں۔
ہلاک ہونے والے افراد کی شناحت محمد صالح اور اسکے جوان سال بیٹے سے ہوئی ہے۔ مقتولین کا تعلق تحصیل زامران کے علاقہ کسوئی سے بتایا جاتا ہے۔
علاقائی ذرائع کے مطابق فورسز کا موقف ہے کہ گاڑی نہ روکنے کی وجہ سے فائرنگ کی گئی۔
۔۔۔ تمپ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک شخص کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ قتل ہونے والے شخص کی شناخت برکت کے نام سے ہوئی ہے تاہم قتل کے محرکات سامنے نہیں آسکیں ہیں۔
۔۔۔بلوچستان کے علاقے منگچر سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والا نوجوان ربنواز آٹھ سال بعد بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا۔
ربنواز لانگو کو 13 جنوری 2013 کو پاکستانی فورسز نے اس وقت حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا جب منگچر کے خلق مجید شہید میں فورسز کی جانب سے ایک بڑے پیمانے کی آپریشن کی گئی۔
مذکورہ آپریشن میں یونس لانگو جانبحق ہوا تھا جبکہ فورسز نے سات افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جن میں سے باقی افراد بعدازاں مختلف اوقات میں رہا ہوگئے لیکن ربنواز سمیت ایک اور شخص رہا نہیں ہوسکے تھے۔
٭٭٭

Share This Article
Leave a Comment