صدارتی آرڈیننس مفروضوں کی بنیاد پر جاری کیا گیا،سپریم کورٹ

0
299

سپریم کورٹ نے آئندہ ماہ ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹنگ کروانے سے متعلق صدارتی آرڈیننس کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم میں شامل ایک جماعت کی طرف سے دائر کی جانے والی درخواست کو ابتدائی سماعت کے لیے منظور کرلیا ہے اور اس ضمن میں وفاق کے نمائندے یعنی اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔

یہ معاملہ پیر کے روز سپریم کورٹ میں سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹنگ کے ذریعے کروانے سے متعلق سپریم کورٹ سے رائے لینے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران اٹھایا گیا۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اس صدارتی ریفرنس پر دلائل دے رہے تھے تو جمعیت علماءاسلام کے رہنما اور سابق سینیٹر کامران مرتضی روسٹم پر آئے اور کہا کہ ان کی جماعت نے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹنگ سے کروانے کے بارے میں دو روز قبل جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس کو چیلنج کیا ہے۔

واضح رہے کہ موجودہ حکومت کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کے حوالے سے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت نہیں اور حزب مخالف بھی اس حوالے سے حکومت سے تعاون کرنے کو تیار نہیں۔

صدر مملکت کی طرف سے دو روز قبل آرڈیننس جاری کیا گیا جس میں سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کی بجائے اوپن بیلٹنگ کے ذریعے کروانے کے بارے میں کہا گیا ہے۔

کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ایک طرف حکومت اوپن رائے شماری کروانے کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رائے مانگ رہی ہے جبکہ دوسری طرف اس سلسلے میں آرڈیننس بھی جاری کر رہی ہے۔

کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی خودمختاری کو سبوتاژ کیا گیا اس لیے اس صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو آرڈیننس جاری کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مفروضوں کی بنیاد پر صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا۔

بنچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس آرڈیننس پر عمل درآمد سپریم کورٹ کی رائے سے مشروط ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کی رائے اس کے برعکس ہوئی تو یہ آرڈیننس خود بخود کالعدم ہو جائے گا۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ آج تک ایسی قانون سازی نہیں ہوئی اور حکومت نے اس حوالے سے پہلے اپنا ذہن بنا کر اسے عدالتی کارروائی سے مشروط کیا۔

انھوں نے کہا کہ عدالت اس معاملے پر فیصلہ دینے سے پہلے حالات و واقعات کو مدنظر رکھے کہ جن حالات میں یہ آرڈیننس لایا گیا اور پارلیمنٹ سے حکومت کی طرف سے پیش کی گئی ترمیم ابھی تک منظور کیوں نہیں ہو سکی۔

سماعت کے دوران گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں سینیٹ میں اوپن رائے شماری کروانے کے لیے آئین میں ترمیم پیش کرنے کے دوران جو واقعات رونما ہوئے، ان کا بھی ذکر ہوا۔

بنچ کے رکن جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں قومی اسمبلی میں ایسے مناظر نہیں دیکھے گئے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بیرون ممالک تو کرسیاں تک چل جاتی ہیں یہاں پر حالات ایسے نہیں ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں اس لیے کرسیاں نہیں چلتیں کیونکہ یہاں پر کرسیاں فکسڈ ہے۔

عدالت کی طرف سے ایسے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہہ بلند ہوا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے اپنے ملک میں اچھے سیاست دان بھی دیکھے ہیں اور ہمیں سب سیاست دانوں کو ایک ترازو میں نہیں تولنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا کہ وفاداری پارٹی نظریات سے ہوتی ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملکی آئین بنانے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو، ولی خان، مفتی محمود اور نوابزادہ نصراللہ جیسے لوگ شامل تھے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نواب اکبر خان بگٹی جیسے لوگ بھی آئین بنانے والوں میں شامل تھے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سنہ 1985میں ہونے والے عام انتخابات کی مثال سب کے سامنے ہے جس کے نتیجے میں سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت بنی اور اس میں بھی پیسے کا بےدریغ استعمال ہوا۔

صدارتی ریفرنس پر دوبارہ سماعت اب 9 فروری کو ہو گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here