امریکا نے پابندیاں نرم نہ کیں تو جوہری معاہدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے، ایران

0
215

ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ رواں ماہ 21 فروری تک اس پر عائد پابندیوں میں نرمی نہیں کرتا تو جوہری معاہدے کو مزید خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ہفتے کو ایک ایرانی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ پارلیمنٹ میں حال ہی میں کی جانے والی قانون سازی نے حکومت کو پابند کر دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں سخت موقف اپنائے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں ایران کی پارلیمنٹ نے ایک بل منظور کیا تھا جس میں عالمی معائنہ کاروں کو ایران کی جوہری تنصیبات کے معائنے سے روک دیا گیا تھا۔

پارلیمان نے ایران پر پابندیاں ہٹائے جانے تک یورینیم کی افزدوگی بڑھانے کی بھی اجازت دی تھی۔

جواد ظریف کا مزید کہنا تھا کہ جوہری معاہدے سے متعلق سخت موقف رکھنے والے صدر کا جون میں الیکشن بھی جوہری معاہدے کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وقت تیزی سے امریکہ کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ کیوں کہ پارلیمان کی قانون سازی، جون میں صدارتی انتخابات اور نئے سال کے پیشِ نظر حالات بدل رہے ہیں۔

خیال رہے کہ ایران میں نئے سال کا آغاز ایران کے قمری کیلنڈر کے مطابق 21 مارچ کو ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے میں امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک فریق تھے۔ 2018 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو ناقص قرار دیتے ہوئے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

ایران نے بھی جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ تاہم ایران کا یہ موقف تھا کہ وہ جوہری توانائی صرف پرامن مقاصد کے لیے حاصل کر رہا ہے۔

ایران نے پچھلے ماہ اعلان کیا تھا کہ اس نے فوردو پلانٹ پر یورینیم کی افزودگی کا عمل 20 فی صد تک بڑ ھا دیا ہے جو کہ جوہری معاہدہ طے پائے جانے سے پہلے تھا۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر ایران معاہدے کی مکمل طور پر پاسداری کرتا ہے تو امریکہ معاہدے میں دوبارہ شامل ہو سکتا ہے۔

ایران کا اب کہنا ہے کہ جوہری معاہدے سے متعلق نہ تو مزید مذاکرات کی گنجائش ہے اور نہ ہی اس میں کسی اور ملک کو شامل کیا جا سکتا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد ایران سے متعلق بہت کم بات کی ہے۔ تاہم بعض امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ایران کے جوہری اور میزائل پروگرام سے متعلق خاموشی سے کام کر رہی ہے۔

رپورٹس کے مطابق بائیڈن انتظامیہ تہران کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے یہ طے کرنے کی کوششوں میں ہے کہ کب اور کیسے جوہری معاہدے کا حصہ بنا جائے۔

دوسری طرف امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھی جمعے کو یورپی اتحادیوں کے ساتھ منعقدہ میٹنگ میں ایران کی سرگرمیوں اور اگلے لائحہ عمل سے متعلق بات چیت کی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here