آنگ سان سوچی کیخلاف غیر قانونی کمیونی کیشن آلات استعمال کرنیکا مقدمہ درج

ایڈمن
ایڈمن
7 Min Read

میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد پولیس نے ملک کی اہم سویلین رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے ہیں۔

پولیس دستاویزات کے مطابق آنگ سان سوچی 15 فروری تک زیر حراست رہیں گی۔

آنگ سان سوچی کے خلاف درج مقدمے میں امپورٹ اور ایکسپورٹ قوانین کی خلاف ورزی اور غیر قانونی کمیونیکیشن ڈیوائسز رکھنے کے الزامات شامل ہیں۔

آنگ سان سوچی اس وقت کہاں ہیں، اس بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان کو دارالحکومت میں قائم اپنی رہائش گاہ میں ہی حراست میں رکھا گیا ہے۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق میانمار کے برطرف کیے گئے صدر ون مینت کے خلاف بھی مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ ان پر کورونا وائرس کی وبا کے دوران ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مجمع اکھٹا کرنے کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ انھیں دو ہفتے کے لیے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ یکم فروری کو میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد سے نہ تو صدر اور نہ ہی آنگ سان سوچی کی جانب سے کوئی پیغام سامنے آیا ہے۔

مسلح افواج کے کمانڈر اِن چیف من آنگ ہلینگ کی قیادت میں 11 رکنی کابینہ نے ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔

فوج نے مو¿قف اختیار کیا ہے کہ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کی گئی تھی۔ ان انتخابات میں آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔

پولیس نے عدالت میں جمع کرائی گئیں دستاویزات میں ملک کی برطرف قیادت کے خلاف الزامات کی تفصیل بتائی ہے۔

الزامات کے مطابق آنگ سان سوچی نے اپنے استعمال کے لیے غیر قانونی طور پر کمیونیکیشن کے آلات جیسا کہ واکی ٹاکیز، بیرون ملک سے درآمد کیں اور یہ ان کے گھر سے برآمد ہوئی ہیں۔

دستاویزات کے مطابق آنگ سان سوچی کو ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں دے دیا گیا ہے۔

میانمار کے برطرف صدر ون مینت پر نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ قانون کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انتخابات کے دوران انھوں نے اپنے حامیوں کے ساتھ گاڑیوں کے قافلوں میں لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔

میانمار میں آنگ سان سوچی کی رہائی کے لیے آوازیں بلند ہو رہی ہیں

میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد آنگ سان سوچی کی رہائی کے لیے اٹھنے والی آوازوں میں تیزی آتی جا رہی ہے۔

میانمار کی فوجی قیادت نے پیر کو آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت پر بھاری اکثریت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے سوچی سمیت دیگر منتخب رہنماو¿ں کو حراست میں لے لیا تھا۔

آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) نے منگل کو اپنی قائد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ این ایل ڈی نے فوج سے نومبر میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے کا بھی مطالہ کیا جس میں این ایل ڈی نے 80 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔

سوچی جو ملک کی منتخب حکومت کی سربراہی کر رہی تھیں ان کو فوج کی حراست میں لیے جانے کے بعد کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

سینکڑوں کی تعداد میں منتخب اراکین بھی فوجی بغاوت کے بعد ملک کے دارالحکومت میں ان کے رہائشی علاقے کو گھیرے میں لیے جانے کے بعد سے حراست میں ہیں۔ ملک میں کہیں سے بھی کسی عوامی مظاہرے کی کوئی اطلاع نہیں ہے لیکن طبی عملے کی طرف سے احتجاجاً ہڑتال کی گئی ہے۔

میامنار جس کا پرانا نام برما تھا، وہاں سنہ 2011 تک فوجی آمریت قائم رہی اور اس کے بعد آنگ سان سوچی کی قیادت میں ملک میں سیاسی اصلاحات کا عمل شروع ہوا اور ملک میں کئی دہائیوں بعد عام انتخابات کرائے گئے اور ایک جمہوری حکومت قائم ہوئی۔

آنگ سان سوچی کو پیر کو علی الصبح گرفتار کیے جانے کے بعد سے سرکاری طور پر ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا تھا اور بدھ کو ان کے خلاف مقدمے کی خبر سامنے آئی ہے۔

اس سے پہلے آنگ سان سوچی کی جماعت این ایل ڈی کے ذرائع کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ آنگ سان سوچی اور صدر ون مینت کو ان کے گھروں پر ہی نظر بند کر دیا گیا ہے۔

ایک رکن پارلیمان نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ’ہمیں کہا گیا ہے کہ فکر مند نہ ہوں۔ لیکن ہم فکر مند ہیں۔ اگر ہم ان کی گھر پر نظر بندی کی کوئی تصویر دیکھ لیں تو ہماری پریشانی میں کمی ہو گی۔‘

بہت سے ارکان پارلیمان کو دارالحکومت میں ان کی سرکاری رہائش گاہ پر ہی نظر بند کر دیا گیا ہے لیکن این ایل ڈی کے ایک رکن نے اسے ایک کھلا حراستی مرکز قرار دیا ہے۔

آنگ سان سوچی جنھوں نے سنہ 1989 سے 2010 تک پندرہ سال فوج کی حراست میں گزرے تھے، انھوں نے گرفتاری سے قبل اپنے حامیوں کے نام ایک خط میں فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرنے کا کہا تھا۔ انھوں نے خبردار کیا تھا کہ فوجی بغاوت کے بعد ملک پھر فوجی آمریت کی طرف چلا جائے گا۔

میانمار کے آئین کے تحت آنگ سان سوچی ملک کی صدر نہیں بن سکتیں کیونکہ آئین میں درج ہے کہ غیر ملکی بچوں کے والدین ملک کے صدر کا عہدہ نہیں سنبھال سکتے۔ آنگ سوچی کے شوہر برطانوی شہریت کے حامل تھے اور ان کے بچے بھی برطانوی شہریت رکھتے ہیں۔ لیکن این ایل ڈی کی سنہ 2015 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد سے عملی طور پر انھیں ہی ملک کے سربراہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

Share This Article
Leave a Comment