کریمہ بلوچ کی لاپتہ اور بعدازاں قتل کے بعد بلوچستان سمیت دنیا بھر میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے گزشتہ روز آدھی رات کو کریمہ بلوچ کی اہلخانہ کی تصدیق کے بعد آدھے گھنٹے کے اندر کریمہ بلوچ ٹویٹر پہ ٹوپ ٹرینڈ بن گیا جو تاحال ٹوپ ٹرینڈ پہ موجود ہے۔
سیاسی و سماجی حلقوں سمیت انسانی حقوق کے علمبردار کریمہ بلوچ کی قتل کا الزام پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کو ٹھرا رہے ہیں۔
کریمہ بلوچ کی قتل کی تصدیق کے بعد سے سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ان کی قتل کی تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ’مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں سماجی کارکن کریمہ بلوچ کی قتل انتہائی افسوسناک ہے اور اس کی فوری اور مؤثر تحقیقات ہونی چاہیے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔‘
بی بی سی کے معروف صحافی ریاض سہیل لکھتے ہیں کہ کریمہ کے بقول انسداد دہشت گردی کی عدالت نے انھیں جب سزا سنائی تو کہا کہ خاتون ہونے کی وجہ سے آپ کی سزا میں رعایت دی جاتی ہے جس پر انھوں نے کہا کہ ’سزا بھی برابری کی بنیاد پر دی جائے۔‘
بلوچ نیشنل موومٹ کے انفارمیشن سیکریٹری دلمراد بلوچ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ بی ایس او آزاد کے سابق چیئرپرسن اور بلوچوں کے طلسماتی رہنما کی موت ایک صدمے سے کم نہیں اور ایک قومی نقصان ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ثنا اللہ بلوچ نے ٹوئٹر پر اپنے تعزیتی پیغام میں لکھا: ’کریمہ بلوچ کی ناگہانی موت قومی سانحہ و صدمے سے کم نہیں۔ ایک بلوچ بیٹی کا اس طرح دنیا کے سب سے محفوظ ملک کینیڈا میں لاپتہ و قتل ہونے کے عمل کے تمام حقائق کو سامنے لانا ہو گا۔ ہم لواحقین و خاندان کے غم میں شریک ہیں۔ اللہ تبارک تعالی انکو جوار رحمت میں جگہ دے۔‘
بلوچ ریپبلکن پارٹی کے ترجمان شیر محمد بگٹی نے لکھا: ’کریمہ بلوچ کا اچانک انتقال کسی صدمے سے کم نہیں۔ یہ حکومت کینیڈا کا فرض ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کرے اور ان کے خاندان اور بلوچ قوم کو تمام حقائق سے آگاہ کرے۔‘
پشتین ادریس نے لکھا: ’لاپتہ افراد کی ایک بلند آواز کریمہ بلوچ اب ہم میں نہیں رہیں۔ یہ دکھ بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں۔‘
صحافی محمد تقی نے لکھا: ’کریمہ بلوچ کی خبر سے دل کی گہرائیوں سے رنجیدہ ہیں۔ وہ ایک مہذب انسان اور پرعزم سیاسی کارکن تھی اور لوگ صرف 35 سال کی عمر میں بغیر کسی وجہ سے غائب اور مردہ نہیں ہو جاتے۔ یہ ایک بدصورت/گھناؤنا کھیل لگتا ہے۔‘
گلالئی اسماعیل نے لکھا: ’کریمہ بلوچ کا قتل شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان کا قتل سویڈن میں بلوچ صحافی ساجد حسین کے لاپتہ ہونے اور لاش برآمد ہونے کے کئی ماہ بعد کیا گیا ہے۔ کریمہ بلوچ ایک جلاوطن کارکن تھی جو کینیڈا آئی تھیں کیونکہ پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ تھا۔‘
سماجی کارکنوں اور سوشل میڈیا میں شدید احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں کینڈا سرکار سے مجرموں کو کٹہرئے میں لانے اور تحقیق کا مطالبہ جاری ہے۔
کریمہ بلوچ کو بلوچ خواتین میں سیاسی تحریک پیدا کرنے کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی ستر برس کی تاریخ میں تنظیم کی پہلی خاتون سربراہ بنیں۔
بلوچستان میں جان کو لاحق خطرات کے باعث انھوں نے کینیڈا میں سیاسی پناہ حاصل کرلی تھی۔ جس کے بعد وہ کینیڈا اور سوئزرلینڈ میں اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں بلوچستان کے مسائل اجاگر کرتی رہیں۔
واضح رہے کہ رواں سال مارچ کے مہینے میں ایک اور بلوچ پناہ گزین صحافی ساجد حسین سویڈن سے لاپتہ ہو گئے تھے اور کچھ وقت بعد ان کی لاش اپسالا سویڈن کے ایک دریا سے برآمد ہوئی تھی۔ ان کے عزیز و اقارب نے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں قتل کیا گیا ہے تاہم پولیس کی تحقیقات میں یہ بات ثابت نہیں ہو سکی تھی۔