گوادر کے گرد باڑ کیوں؟ -ذوالفقار علی زلفی

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

ہمارے ایک قلم کار دوست نے سوال اٹھایا “گوادر کے گرد لگنے والی باڑ کو روکا جاسکتا ہے“؟ پھر خود جواب دیا کہ “روکنا ممکن نہیں اور بلوچ اس کو روک بھی نہیں سکتے” ۔ اس دوست کے مطابق سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچوں میں اتحاد نہیں ہے ۔ آگے جا کر جناب ہمیں بتاتے ہیں کہ “مسلح وغیر مسلح تنظیمیں ایک دوسرے کو قوم دشمن گردانتی ہیں ، بلوچ منتشر ہیں اور ان میں اتحاد کا فقدان ہے ۔اس دوست کے مطابق ہم سے سندھی بہتر ہیں جو اپنے جزائر بچا گئے ۔ آخر میں لکھاری اس اعلان پہ بات ختم کرتے ہیں کہ “بلوچ سو رہے ہیں“۔

میری رائے میں دوست کے فکری ڈھانچے کی بنیاد کمزور ہے۔ اگر کسی کی بنیاد کمزور ہو تو اس کا پورا مقدمہ دم توڑ جاتا ہے ۔یہی کچھ میرے قابل دوست کے ساتھ بھی ہوا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ گوادر کے گرد لگنے والی باڑ کو روکا جاسکتا ہے یا نہیں بلکہ درست سوال یہ ہے کہ گوادر کے گرد باڑ کیوں؟ 

پاکستان پہلے کہتا تھا کہ “بلوچستان کا مسئلہ صرف تین سرداروں کا ہے” ۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم ان سرداروں کو ڈرائیں گے یا ماریں گے تو مسئلہ حل ہوجائے گا ـ انہوں نے نواب اکبر خان بگٹی کو قتل کیا ، سردار عطا اللہ مینگل کے گھر کا گھیراؤ کرکے ان کو گھر تک محدود کرنے کی کوشش کی اور ان کے خلاف جرائم پیشہ عناصر کو کھڑا کیا گیا۔ نواب خیر بخش مری کو ہرانے اور جھکانے کیلئے محبت خان مری جیسے کارٹون تخلیق کیے گئے لیکن ریاست کامیاب نہ ہو سکی ۔

پھر پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے بلوچستان کے مسئلے کو صرف دو تین اضلاع کی شورش قرار دے کر مژدہ سنایا جلد یہ اضلاع کلیئر کردیے جائیں گے ۔ یہاں بھی وہ ناکام رہے ۔ پھر انہوں نے پروپیگنڈہ کیا یہ مٹھی بھر لوگ ہیں انکو ہم ٹھیک کردیں گے ۔ ہزاروں لوگوں کو بالجبر اٹھا کر غائب کر دیا گیا ، سینکڑوں کی مسخ لاشیں ملیں ـ قلمکار، ادیب، سیاسی ورکرز الغرض جو بھی انکے ہاتھ لگا وہ واپس نہیں آیا اگر ایک آدھ زندہ لوٹا تو وہ بھی نیم مردہ حالت میں ۔پاکستان نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔

ہمیں ہمیشہ یہ بتایا گیا کہ بلوچ انسرجنسی اب ختم ہو گی کہ اب ہوگی ، بلوچ جدوجہد اب بس ختم ہونے کے دہانے پر ہے یا ایسا ہے ، ویسا ہے ۔اب آئے ہیں گوادر کے گرد باڑ لگانے۔ کسی زمین کو باڑ لگانا دفاعی پوزیشن کے زمرے میں آتا ہے ۔دفاعی پوزیشن نا صرف ناکامی کا اعلان ہے بلکہ خوف کی بھی علامت ہے ۔ اپنے گرد حصار بنانا خود کو بچانے کا آخری حربہ ہے ۔ جب قبضہ گیر حملہ آور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ میں اپنے دشمن کو ہرا نہیں سکتا تو اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ خود کو اور اپنے اثاثوں کو محفوظ رکھ سکے۔

پاکستانی ریاست اب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ بلوچ کو روکنا تو ناممکن ہے بہتر ہوگا کہ وہ خود کو قلعہ بند کر لے۔ اگر بلوچ قوم سو رہی ہوتی اور بلوچ جہدکار نااہل ہوتے تو ایک ایٹمی طاقت کیا خود کو قلعہ بند کرتی؟ یہ گوادر کو نہیں خو د کو باڑ میں بند کررہے ہیں۔ طالبان نے ان کے اوپر بدترین حملے کیے ۔ یہاں تک کہ وہ جی ایچ کیو بھی پہنچ گئے لیکن کیا کبھی انھوں نے اسلام آباد کے گرد باڑ لگائی؟

پاکستانی پالیسی سازوں کو امید تھی کہ طالبان کا کوئی نا کوئی حل ضرور نکلے گا اس کی وجہ سیدھی ہے طالبان کے ساتھ ان کے تضادات معاندانہ نہیں بلکہ ردعمل کی بنیاد پر پیدا ہونے والے تضادات ہیں اس لیے انہوں نے طالبان کے ڈر سے باڑ نہیں لگائی۔توقع کے عین مطابق وہ طالبان سے مفاہمت کا راستہ نکالنے کی کوشش کررہے ہیں ۔

بلوچستان سے یہ کاملاً نا امید ہو چکے ہیں ۔ نواب مگسی، نواب زہری، نواب رئيسانی ، سردار رند، ارب پتی مڈل کلاس اور ڈیتھ اسکواڈ سب کوآزمانے کے بعد اب معاملہ اپنے اور اپنے اثاثوں کے گرد باڑ لگانے تک آگیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ بلوچ فوراً اس باڑ کو اکھاڑ نہ سکیں ۔ یہ پریشانی کی بات نہیں ہے ۔ دنیا تک بات پہنچ چکی ہے کہ یہ کتنے خوفزدہ ہوچکے ہیں۔اگر آج نہیں تو کل بلوچ ان کے تمام حفاظتی حصار توڑ دیں گے ۔

بلوچ لکھاریوں کو قوم میں بد دلی اور مایوسی پیدا کرنے سے احتراز برتنا چاہیے ۔ یہ قوم کم از کم سندھیوں سے تو بالکل کمزور نہیں ہے ـ یہ ارب پتی مڈل کلاس ، نام نہاد قوم پرست اور سردار کب تحریک کے ساتھ تھے جو اب ہوں گے؟ کل بھی ھمل جیئند کے ہمراہ عام بلوچ تھے اور آج بھی ھمل کے ساتھی وہی آبلہ پا بلوچ ہیں ۔ اپنے نیلے سمندر کا دفاع بلوچ اچھی طرح سے جانتے ہیں ـ قوم کو مایوس کرنے کی کوشش ترک ہونی چاہیے۔

اردو ترجمہ: ریاض بلوچ – بشکریہ نیا زمانہ

Share This Article
Leave a Comment