پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ ان کی جدوجہد پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ انھیں اقتدار میں لانے والوں کے خلاف ہے۔
انھوں نے یہ بات اتوار کو پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ملک کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی حکومت مخالف آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سابق وزیر اعظم یوسف گیلانی نے کہا تھا ’ملک میں ریاست کے اندر ریاست ہے‘۔ لیکن اب معاملہ ریاست سے بالاتر ریاست تک پہنچ گیا ہے۔‘
نواز شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ملک میں جمہوریت کمزور ہو گئی ہے اور عوام کی حمایت سے کوئی جمہوری حکومت بن جائے تو کیسے ان کے خلاف سازش ہوتی ہے اور قومی سلامتی کے خلاف نشان دہی کرنے پر انھیں غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔‘
اس کانفرنس کی میزبان جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری ویڈیو لنک کے ذریعے ابتدائی خطاب کرتے ہوئے تمام شرکا اور خصوصاً مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریف کا اس کانفرنس میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
آصف زرداری نے کہا ہے کہ ’ہم صرف حکومت گرانے کے لیے نہیں ملے ہیں۔ ہم حکومت نکال کر جمہوریت بحال کر کے رہیں گے۔ میثاق جمہوریت سے ہم آہنگی پیدا کی تھی۔ شرکائ اے پی سی میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں۔ ہم نے کوشش کی دو سال میں جمہوریت بچے۔‘
آصف زرداری کے خطاب کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریف کا اے پی سی سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ اس اے پی سی کو فیصلہ کن موڑ سمجھتے ہیں اور ایک جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مصلحت چھوڑ کر فیصلے کیے جائیں۔
‘جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں اور بےباک فیصلے کریں۔ آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے۔‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ہمیشہ جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے، جمہوریت کی روح عوام کی رائے ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ملک کا نظام وہ لوگ چلائیں جنھیں لوگ ووٹ کے ذریعے حق دیں۔
انھوں نے کہا کہ آئین کے مطابق جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے ہے، جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے تو جمہوری عمل بے معنی ہو جاتا ہے، انتخابی عمل سے قبل یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا کس کو جتانا ہے، کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے، مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ پاکستان کو ایسے تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا گیا ہے، اگر کوئی حکومت بن بھی گئی تو اسے پہلے بے اثر پھر فارغ کر دیا جاتا ہے، بچے بچے کی زبان پر ہے کہ ایک بار بھی منتخب وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ آئین پر عمل کرنے والے ابھی تک کٹہروں اور جیلوں میں ہیں لیکن کیا کبھی کسی ڈکٹیٹر کو سزا ملی؟
انھوں نے مزید کہا کہ ڈکٹیٹر کو بڑے سے بڑے جرم پر کوئی اسے چھو بھی نہیں سکتا، کیا کسی ڈکٹیٹر کو سزا ملی؟ ایک ڈکٹیٹر پر مقدمہ چلا خصوصی عدالت بنی، کارروائی ہوئی، سزا سنائی گئی لیکن کیا ہوا؟
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اس کانفرنس کو بامقصد بنانا ہوگا۔ یہ ٹرینڈ آصف زرداری صاحب نے سیٹ کیا ہے اسی کو لے کر جانا ہو گا۔72 برس سے پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہے اس کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کو جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے۔‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ عوام کی رائے پر جمہوریت کی بنیاد ہے۔ دنیا بھر میں یہی اصول ہے۔ جب جمہوریت کی بنیاد پر ضرب لگتی ہے تو سارا نظام جعلی ہو کر رہ جاتا ہے۔ حکومت بن بھی جائے تو سازش سے اسے بے اثر اور پھر فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ریاستی ڈھانچہ اس سے کمزور ہوتا ہے اور عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
نواز شریف نے اپنے خطاب میں آصف زرداری کا شکریہ بھی ادا کیا اور ان کی صحت کے لیے نیک تمنائیں بھی دی۔ ان کا کہنا تھا ‘محترم آصف زرداری صاحب اللہ آپ کو بھی صحت عطا کرے۔ میری دعائیں آپ کے لیے اور بلاول کے لیے ہیں۔ ان سے پرسوں بات کر کے مجھے بہت خوشی ہوئی۔ جس پیار محبت سے انھوں نے بات کی میں نہیں بھولوں گا۔’
ان کا کہنا تھا کہ میں کانفرنس کے میزبانوں کا شکر گزار ہوں کہ مجھے اس کانفرنس میں اپنی بات کہنے کا موقع دیا۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ: ’وقت آگیا ہے کہ ان سوالوں کے جواب لیے جائیں۔ دو وزیر اعظم موجود ہیں وہ جانتے ہیں کہ سول حکومت کے گرد کس طرح کی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ ایسی کارروائیاں ہوتی ہیں جن کا وزیر اعظم یا صدر کو علم نہیں ہوتا۔
’ان کارروائیوں کی بھاری قیمت ریاست کو ادا کرنی ہوتی ہے۔ اکتوبر 2016 میں قومی سلامتی کے امور پر بحث کے دوران توجہ دلائی گئی کہ دوستوں سمیت دنیا کو ہم سے شکایت ہے ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ دنیا ہم پر انگلی نہ اٹھائے تو اسے ڈان لیکس کا نام دیا اور ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جے آئی ٹی بنی اور مجھے غدار اور ملک دشمن بنا دیا گیا۔‘
’ایک ٹویٹ میں ‘مسترد’ کا ٹائٹل دے دیا گیا۔ سی پیک کو ناکام بنانے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب چینی صدر کا دورہ منسوخ کرایا گیا۔ چین ہمارا دوست ہے۔ صدر شی جن پنگ کا کردار باعث تعریف ہے۔ لیکن یہ منصوبہ نااہلی کا شکار ہو رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کے ساتھ پشاور بی آر ٹی جیسا سلوک ہو رہا ہے۔ کبھی بسوں میں آگ تو کبھی بارش پول کھول دیتی ہے۔
’آمر کے بنائے ادارے نیب کو برقرار رکھنا ہماری غلطی تھی۔ یہ اندھے حکومتی انتقام کا اعلیٰ کار بن چکا ہے۔ اس ادارے کے چیئرمین جاوید اقبال کی خلاف کارروائیوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا، نہ عمران خان کے کان پر کوئی جو رینگتی ہے۔‘
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’بہت جلد انشا اللہ ان سب کا یوم حساب آئے گا۔ بین الاقوامی ادارے اور ہماری عدالتیں اس کے کردار کو بیان کر چکی ہیں۔ یہ ادارہ اپنا جواز کھو چکا ہے۔ اپوزیشن کے لوگ اس کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور گھر کی خواتین کے ساتھ نیب کے دفتروں اور جیلوں میں ر±ل رہے ہیں۔ نیب نہیں تو ایف آئی اے، اینٹی نارکوٹکس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’سینیٹ میں انتخابات سے قبل ایک سازش کی گئی جس کے تحت بلوچستان کی صوبائی حکومت گِرا دی گئی۔‘
نواز شریف نے چیئرمین سی پیک عاصم سلیم باجوہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے اثاثوں پر سوال اٹھائے۔ ‘نہ کوئی جے آئی ٹی بنی نہ کوئی احتساب نہ کوئی سزا۔ عمران خان نے بھی ان کے اثاثوں کا نہیں پوچھا اور ایمانداری کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا۔’
انھوں نے خطاب میں ملکی اداروں سے سوال کیا کہ ’کیا بنی گالہ کی فائل ایسے ہی بند رہے گی۔ ہم کب تک انتظار کریں گے۔ کیا ان لوگوں پر کوئی فوجداری مقدمہ درج نہیں ہو گا۔ عمران خان نے اربوں کے اثاثے رکھتے ہوئے بھی اتنا کم ٹیکس ادا کیا ہے۔ کیا نیب اس پر کوئی ایکشن نہیں لے گا؟‘
’کیا کچھ لوگ آگے بھی سزائیں پاتے رہیں گے اور کچھ لوگ ایمانداری کے سرٹیفیکیٹ پاتے رہیں گے۔ کیا ہم ایسا پاکستان اپنی آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑنا چاہتے ہیں۔ میں تو کہوں گا کبھی بھی نہیں۔‘
’ایجنسیوں کی جانب سے لوگوں کو اٹھانا، میڈیا کے نمائندوں کو بے بنیاد مقدمات میں نامزد کر دینا کیا، یہ جمہوری معاشرے کی نشانیاں ہیں؟ ہم میڈیا پر کوئی قدغن منظور نہیں کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جمہوریت کو کمزور کرنے کے لیے ‘لڑاو¿ اور حکومت کرو’ کی پالیسی نافذ کر دی گئی ہے۔ سیاستدانوں کو بلایا، ڈرایا اور دھمکایا جاتا تھا۔ یہ طریقہ آج بھی استعمال ہوتا ہے۔ محکمہ زراعت کو تو آپ سمجھتے ہی ہیں۔ ہم ایک ہو کر تقسیم نہیں ہوتے تو یہ کانفرنس کامیاب ہوگی۔۔۔ وکلا، دانشوروں، میڈیا اور عدلیہ کے لیے بھی یہ طریقہ استعمال ہو رہا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ اور شوکت عزیز صدیقی دونوں جج ایماندار ہیں اور انتقام کا شکار بن رہے ہیں۔‘
’یہاں ایماندار نہیں بلکہ ایسے لوگ استعمال کیے جاتے ہیں جن کے ساتھ نظریہ ضرورت بنایا جائے۔ یہ تماشہ آپ نے دیکھا ہے اور عوام کے منتخب وزیراعظم کو پھانسی، جلا وطن اور سزا دے کر ان کے خاندان کو ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔‘
’کانفرنس کو جامع لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے۔ اس وقت اولین ترجیح اس نظام سے نجات حاصل کرنا ہے۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ ’عمران خان ہمارا ہدف نہیں ہے۔ ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ہے۔ ہماری جدوجہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے اور ان کے خلاف ہے جنھوں نے نااہل بندے کو لا کر بٹھایا ہے۔
’یہ تبدیلی عمل میں نہ آئی تو یہ نااہل اور ظالمانہ نظام ملک کو کمزور کر دے گا۔ مضبوط معاشی نظام کی بھی ضرورت ہے۔۔۔ ہماری قومی سلامتی کے لیے ضرورت ہے کہ معیشت کے ساتھ مسلح افواج کو بھی مضبوط بنائیں۔ آئندہ بھی ترجیح رہے گی کہ ضروری ہے کہ مسلح افواج قائد اعظم کی تقریر کے مطابق سیاست سے دور رہیں۔ کسی کے کہنے پر وزیر اعظم ہاو¿س میں داخل ہو کر وزیر اعظم کو گرفتار نہ کرے۔ وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے اور مجھے دکھ ہوتا ہے۔ ملک کو تماشا بنا دیا ہے۔
’آخر میں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اے پی سی جو بھی لائحہ عمل تشکیل دے گی مسلم لیگ ن اس میں بھرپور ساتھ دے گی اور ایک سیکنڈ کے لیے بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ٹھوس اقدامات تجویز کیے جائیں۔ ہمارے کئی دوست جیلوں میں ہیں۔ ان کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی۔ میں آپ سب قائدین کا شکر گزار ہوں۔‘