جس کی لاٹھی اس کی بھینس – سمیر جیئند بلوچ

0
396


اس مثل کا پس منظر یہی ہے کہ طاقتور ہی کا سب کچھ ہے۔جب کوئی طاقتور اپنے بل بوتے پر زبردستی کسی کمزور کا مال اپنے قبضے میں کرلے،تو یہ مثل کہی جاتی ہے۔اس مثل کے وجود میں آنے کا سبب ایک دلچسپ حکایت ہے۔
”ایک بار کوئی شخص بازار سے ایک بھینس خرید کر اپنے گھر کی طرف جارہاتھا۔راستے میں سنسان جنگل پڑرہاتھا۔جس وقت وہ سنسان راستے سے گذر رہاتھا تو راستے میں ایک چور ملا۔چور نے اس کا راستہ روک لیا اور دھمکاکر کہاکہ بھینس میرے حوالے کردو۔بھینس والے نے آناکانی کی تو چور نے لاٹھی تان کر کہا اگر تم بھینس نہیں دوگے،تو اسی لاٹھی سے تمہارے سرکو چکنا چور کردوں گا۔پھر تم کو بھینس کے ساتھ ساتھ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔اچھائی اسی میں ہے کہ چوں چرا بھینس میرے حوالے کردو اور اپنے گھر کا راستہ لو۔بھینس والے نے سوچا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے کہیں جان پہ نہ بن آئے۔بھینس دینے میں ہی عافیت ہے۔اس نے بھینس کو چور کے حوالے کردیا اور نہایت عاجزی وانکساری سے کہا۔اب بھینس آپ کی ہے۔راستہ سنسان ہے اگر تم مجھے اپنی یہ لاٹھی دے دو تو میں اس کے سہارے اپنے گھر تک پہنچ جاؤں گا۔چور نے سوچا قیمتی بھینس مجھے مل گئی ہے اب لاٹھی دینے میں کیا مضائقہ ہے۔اس نے بھینس والے کو اپنی لاٹھی دے دی۔چور جوں ہی بھینس کو لیکر چلنے لگا۔اس شخص نے لاٹھی تان کر کہا اب کہاں جاتاہے؟ تیری عافیت اسی میں ہے کہ بھینس کو چھوڑ کر بھاگ جا۔ورنہ تیرے سرکے دوٹکڑے کروں گا۔چور گھبراگیا۔معاملہ الٹا ہوگیا تھا۔موقع کی نذاکت کو بھانپتے ہوئے اس نے بھینس چھوڑدی اور لاٹھی واپس مانگی۔اس شخص نے جواب دیا۔اب یہ لاٹھی تیرے ہاتھ آنے والی نہیں،۔کیوں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس“۔


یہی مثل ہم چور پاکستان اور مالک بلوچستان کے کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہاں پاکستان کی اس چور کی طرح ڈنڈے کے زورپر بلوچستان کو قبضہ کرنے کی 74سالہ ماضی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہوتاہے۔ ایک ایسا غیر فطری ریاست جسے انگریز داد نے ہندوستان کو نیچا دکھانے کیلے بڑی ڈھیٹائی سے بناکر بے یارومددگار چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ اور ایک پل نہ سوچا کہ پوری زندگی بھوکارہنے والا یہ چورلاٹھی ہاتھ میں آنے بعد اپنی اوقات سے بھی زیادہ پاؤں پھیلاکر اس خطے میں وہ بربرزم کا آ ٓغاز کرلے گا۔ جس کی درندگی دیکھ کر بربر قوم خود شرمسار ہونگے کہ جو ظلم انھوں نے انسانوں پر ڈھائے وہ پاکستان اور اسکے فوج کے سامنے دم توڑچکے ہیں۔ یعنی جو ظلم جہاں سے انھوں نے چھوڑا تھا پاکستان ن نے وہیں سے آغاز کردیاہے۔آپ کو بھی یاد ہوگا جب ہندوستان کا بٹواراکیاگیا تو بھکاری پاکستان محمد علی کی شکل میں کشکول لیکر بلوچستان پہنچا کہ مجھ پر رحم کرکے میری مالی کمک کریں۔ جب فراغ دل بلوچستان نے اس کو سونے چاندی سے مالا مال کردیا ۔تو وہ نو مہینہ کے بعد اس محسن کے سر پر اپنے ناپاک بوٹ رکھ کر اس کے شہ رگ پر چھری سے وار کر کے اسے قبضہ کر لیا۔اس دن سے شروع ہونے والا ظلم جس کی وحشت بربریت آج بھی بلوچستان کے ہر گھر،ہر خاندان ہر گلی، ہرشہر ہر دشت سحرا اور پہاڑوں میں جاری ہے اور بلوچ قوم ہی بھگت رہی ہے۔ بلوچستان میں ایک فیملی نہیں ہے جس میں ایک کلثوم،ملک ناز اور حیات جانور کی طرح ذبحہ نہیں ہورہے ہوں۔اورقصائی وہی بھکاری چور پاکستان ہے جس نے شروع میں بھیک بعد میں ڈندا دکھاکر بلوچستان جیسے ایک دودھ،سونا،چاندی تیل اور معدنی ذخائر دینے والے مالا مال بھینس کو چھینا تھا۔ اب یہ فہم فراصت مالک بلوچ کی ہے کہ وہ اس چور سے ڈنڈا کس طرح چھین کر اپنے بھینس کا واپس مالک بن کر نہ صرف اسے بچالیتے ہیں بلکہ اس شیر خوار بچھڑے کو بھی نئی زندگی اور جان بخشتے ہیں جو بھوک سے پلک رہاہے؟اگر اسے ماں نہیں ملتا تو وہ اسی ظالم قصائی کے چھرے کے ہاتھوں ذبحہ ہوگا،جو تعلیم،علم،عقل،تہذیب،اخلاق،سے آری ہے،جسے صرف اپنے دوہزار تنخواہ سے سروکار ہے۔ذبحہ ہونے والا کوئی عظیم انسان،ڈاکٹر،استاد،انجنیئر وکیل، سیاستدان،سماجی کارکن یا کسی کا لخت جگر نیا معمار طالب علم اور انسانوں کو خوراک دینے والاچرواہاہے،اسے اس سے سروکار نہیں کیوں کہ اس کے ہاتھ میں ڈنڈا(بندوق) ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here