کورونا کا مقابلہ کیسے کیا جاسکتاہے تحریر- سمیر جیئندبلوچ

0
483

کورونا یا کوویڈ 19کب اور کیسے آیا؟ یقیناََ کچھ وقت مہینوں اور سالوں میں اس سے پردہ اٹھ جائے گاکہ یہ عالمی سطح پر وبا کیسے اور کیوں کر پھیلائی گئی؟یا وہ خود بخود ناگزیر وجوہات کی بناپر آئے، ان تمام خدشات سے پردہ فاش ہوجائے گا۔ اس وباء کا تخلیق کیوں؟اور کن مقاصد کے حصولی کیلئے ممکن ہو ایا پیش آئی؟کیوں اسے عام کیاگیا؟ اسکے پیچھے انکے پوشیدہ مقاصد کیا تھے؟آیا وہی مذہبی درندگی جو ہزاراہاسال پہلے جاری رہی؟ جسے کسی نے عیسائیت کے نام پر تو کسی نے اسلام، بدھ ازم اور ہندوازم،وغیرہ کے نام پر اس کھیل کا حصہ مانا؟جن کا سب سے بڑا بنیادی مقصد اقتدار حاصل کرکے لوگوں کو ریموٹ زریعے روبوٹ بناکر اپنے ہاں میں ہاں ملوانا تھا۔ فرض کرلیں کورونا بھی ایک قسم کا وار ہے؟محض آلہ قتل یا طریقہ قتل وقت اور حالات کے ساتھ بدلا گیاہے۔ ماضی میں تلوار،حال میں بندوق،کیمیائی ہتھیار،اور اب (حال جاری میں) وائرس جس میں بظاہر قتل کا الزام فوری طورپر براہ راست کسی پر نہیں لگایا جاسکتا اور نہیں کسی کو فوری قاتل ماناجاتاہے۔ دوسری جانب اس عالمی وبا کوروناکو(مذہبی) پوائنٹ آف ویو سے اسے اللہ پاک یا بھگوان، گاڈ،گوک وغیرہ کا عذاب مان کر اس موت کو بلا کسی احتجاج بغیر قبول کیا جاتاہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکاہے کہ آئندہ آنے والے وقتوں میں یہ راز آئینہ کی طرح سامنے آجائے گی اور تاریخ کا حصہ بنے گا۔یہاں (ذاتی مدا) اس وبا کے نام کے ساتھ انیس لکھنے سے صاف پتاچلتاہے کہ سب کا اتفاق ہے کہ یہ دوہزار انیس ہی میں آچکا یا پھیلایا جاچکاہے اتفاق دیکھنے کو ملتاہے (چاران دی صلاح گؤئوں دی بکری)۔ خیردوہزار انیس سے قبل اگر اموات ہوئے ہیں تو کسی نے ان کے موت پر خاص توجہ نہ دی اور نہ کسی کے وہم گمان میں تھا۔(اگرکسی نے پھیلایاہے اس کے علاوہ حتمی کوئی نہیں جان پاتا)،مگر 2019 جولائی اگست کی بات ہے جس طرح کورونا کے علامات اب بتائے جارہے ہیں ان میں سے کھانسی اور بخار کی وجہ سے ہمارے دو بچے دو اور چھ سال کے عمر کے اتنے جلدی وفات پاگئے کہ ہم سب دنگ رہ گئے۔ان بچوں کو بیماری دوران تین چار دن تک ڈاکٹروں کو دکھاتے رہے، مگر بیماری تھاکہ کنٹرول ہونے کا نام نہیں جان پارہے تھے۔ ڈاکٹروں نے حیرت کا اظہار کیا کہ ہم جو میڈیسن دے رہے ہیں ان کا کیوں کچھ اثر نہیں ہو پارہاتھا؟۔ اور دوسری بات یہ کہ ان بچوں کا ا سطرح جلدی موت کے منہ میں چلے جانا سمجھ سے بالاہے۔اس وقت ہم بھی سوائے ماتم اور پریشانی کے کچھ نہ کرسکھے اور کر ہی کیا سکتے تھے؟ کیوں کہ نہ ہم سائنسدان تھے نہی ڈاکٹر؟ مگر ملا نے کہاکہ اللہ کے بندے تھے انکو پیارا لگے اپنے امانت واپس لے لئے اب ماتم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔تاہم اب بھلاہو انکا جنھوں نے اس وباء کورونا کا نام دیکر دنیا کو آگاہ دی۔ جب شروع شروع میں کورونا نام عالمی سطح پر چھاگیا تو ہم بھی دوسرے مذاہب کے لوگوں کی طرح اپنے محلے کے مولانا کا دامن پکڑ کر اس کے بے ڈھنگے تجاویز اور مشوروں کے پیچھے دوڑنا شروع کردیا۔ محلے کے لوگوں کے ساتھ مل کر ہم بھی مولانا کے باتوں کو بڑھاچڑھاکر پیش کرنے لگے۔ لوگ اس عالمی وبا کے خوف سے اپنے طاقت کے مطابق صدقہ میں اونٹ،گائے،بھیڑ،بکرے،اور مرغیاں اور سادہ چاولیں تقسیم کرنے لگے۔ تو ہم بھی پیٹ پوجا کرکے ملا کو دعائیں دیتے رہے کہ بھلا ہو ملا کا مہنگائی ہاتھوں ہم گوشت کھانا بھول چکے تھے اب وہ یاداشت بحال ہوگئی ۔دیکھتے ہی دیکھتے عام ان پڑھ اور مذہبی لوگوں سے مل کر ملا کے ہدایات مطابق اس وباکو ایک طرف افسانہ کرار دے رہے تھے، تو دوسری طرف اللہ پاک کا عذاب اسکے احکام سے نافرمانی۔حسب معمول ہم بھی رات دس بجے بعد آزان دینے والوں میں شامل ہوئے چھتوں پر چڑھ کر ہمسایوں کے گھروں میں ٹیڑھی نظر سے جھانکنے لگے۔اس طرح دوسرے مذاہب کے ماننے والے مندر اور کلیساؤوں کی طرف سرپٹ دوڑکر انھیں زبردستی آباد کرنے لگے کیوں کہ حکومتوں نے پابندی لگائی تھی کہ مسجد اور عبادت گاہوں کا رخ نہ کریں۔ مگر ہم پیٹ کے پیارے ملا،پنڈت اور فادر کے پیچھے سرپٹ دوڑ پڑے جس میں ذاتی منافع شامل تھا۔

اسی طرح محلے کے سرپنچ نے کہاکہ سرکے بالوں میں خطرہ ہے ہم نے اپنے سر منڈواکر ہیلی پیڈ بنا ڈالے۔ انکے کہنے پر اسپرٹ،اور شراب کو بطور علاج استعماکرنا شروع کردیا۔لہذاجتنی منہ اتنی باتیں ہر کسی نے صلاح دی ہم مشورہ مان کر اس کا تجربہ اپنے آپ پر کر ڈالا۔ اس آنکھ مچولی اور پریکٹس میں مگن تھے کہ ایک دن گلہ خشک ہونے لگا پھر ٹرانسلز بڑھنا شروع ہوئے شام تک خشک کھانسی نے دستک دیکر سینہ کو اپنا بیٹھک بنا ڈالا۔ اس مہمان کے سینہ پر بیٹھنے بعدجو بنگالی کھانا پہلے مزے مزے سے کھاتے تھے اب ان سے جی بھرنے لگا کیوں کہ ذائقہ ہی اڑ رہاتھا۔ ایک دودن میں پھر کھانے سے جی اکتا گیا اب سینہ میں مہمان کے تمام خاندان والے بیوی بچے راج کرنے لگے۔

ڈاکٹر سے نئے مہمان اور اسکے بچوں کے آنے کا زکر کرکے انھیں بھگانے کے نسخے پوچھے تو انھوں وہی ایلوپیتھک کی دوائیاں تھمادیں جنھیں ہر وقت ہم گھر میں استعمال کررہے تھے نیا کچھ نہیں تھا دریافت کیا تو جواب ملا فلحال اس کا علاج انھیں میں موجود ہے۔ بازار کے تھڑے پر بیٹھی جڑی بوٹی بیچنے والے خواتین اور پنسار سے پوچھا تو انھوں نے ایجوائن(ازبوتک)خل مول،سمسوک سمیت ادرک، اور دیسی جڑی بوٹیاں علاج کیلئے تجویز کیں۔ اور فروٹ،شہد،سبزچائے اور چکن سوپ سمیت دیگر نسخے جن میں وٹامن سی ہو ہومیوپتھک والے حکیم نے صلاح دیکر اپنی جان چھڑائی۔یہ تمام چیزیں لینے بعد استعمال کرنا شروع کئے تو دس پندہ دن بعد خشک کھانسی،بلغمی کھانسی میں بدل گئی۔

شریک حیات نے شکر بجا لائی کہ اچھا ہوا خشک کھانسی سے جان چھوٹ گئی اور بلغم آنا شروع ہوگیا۔ہم بھی خوش ہوئے چلو اب شاید پل دوپل سرہانے پر سر رکھ سکھیں گے کیوں کہ اس سے قبل دن رات بیٹھ کر کھانستے تھے اب شاید سونا نصیب ہو۔مگر کہاں؟ سراہنے پر سررکھتے ہی کھانسی کے وارے نیارے ہوجاتے،مجبوراََ اٹھ کر بیٹھ جاتے جس طرح دس پندرہ دن پہلے بیت گئے تھے۔پھر ڈاکٹر،حکیم اور پنسارسے مشورہ ہوا،ڈاکٹر نے اینٹی بائیوٹک بند کروانے کا مشورہ دیا کیوں کہ ہم ایک کورس بجائے دوکھاچکے تھے۔اب سیرپ جیسے کہ شروع دن سے ساتھ دے رہاتھا اور دیسی ٹوٹکے بھی جاری تھے۔دن رات بلغم بھی کھانس کھانس کر نکل رہاتھا تھا،یہاں ایک وضاحت اس سے قبل بھی بلغمی کھانسے سے کئی دفعہ پالاپڑچکا تھا، مگر اس بلغمی کھانسی سے منہ کا جو ذائقہ یا بو آرہاتھا اسے ڈیفائن نہیں کرسکتا کیوں کہ کوئی ایسی اصطلاح

نہیں یا الفاظ یا چیز جس سے تشبیہ دی جاسکھے۔لیکن بلغم نکلنے بعد کچھ سکون اور سانس لینے میں دقت نہیں ہوتی تھی بلکہ قدرے بہتر محسوس ہو رہاتھا۔ اس دوران بخار مسلسل جاری رہا مگر کھانسی کے مقابلے اس کی اوقات اور اہمیت نہیں رہی۔ کیوں کہ اس کی تکلیف کے مقابل یہ بیماری محسوس نہیں ہوتی تھی۔دس دن بلغمی کھانسی دوران چند منٹ کیلئے سرہانے بجائے گول تکیہ پر سر رکھنے کے قابل بن کر،مسرت محسوس ہونے لگی کہ چلو اس وباء سے کچھ نجات مل پائی،مگر یہ غلط فہمی تھی اصل میں موت دانے ڈال رہا تھاکہ میرے نذدیک ہوجاؤ۔ہم موت سے بے خبرایک دن بیٹھنے سے تھک کر تکیہ پر لیٹ گئے،اور دھیمی آواز میں اپنی شریک حیات سے بات شروع کی حسب معمول وہ بات کر رہی تھی اور میں ہاں میں ہاں ملائے جارہاتھاکہ گلے میں خارش اٹھی، اس خارش کا مطلب کھانسی کا خطرناک الارم تھا۔ یہ جان کر اٹھنے کی کوشش کی مگر کھانسی اٹھنے سے پہلے ہی دبوچ لیا اور شروع ہوگئی۔اس کے بعد کچھ پتا نہ چلا صرف محسوس ہورہاتھا کسی آگ میں جل رہاہوں تو کبھی پانی میں غوط کھا جارہاتھاتو کبھی خیال آرہاتھا کہ پاکستان کے جیٹ بمباری کر کے ہمارے محلے کو لگا لگا رہے ہیں اتنے میں پہاڑی تودہ آن گرا۔اس کشمش میں ہوش آیا کہ گھر والوں کے باہوں میں ہوں۔وہ مجھ سے پریشانی کے عالم میں پوچھ رہے تھے کیا ہوا؟ میں لاشعوری ان سے سوال کر رہاتھا مجھے کیا ہوا؟ آپ لوگ خیریت سے ہو؟۔انھوں نے کہاکہ کھانسی آنے پر آپ اٹھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اتنے میں آپ چہرہ سرخ ہوا، پھر جامنی، اور آنکھے باہر کو نکل گئے،جیسے کوئی آپ کا گلہ گھونٹ رہاتھا۔ جب ہم نے شولڈر اور دل کو پریس کرنا شروع کیا تو آپکی سانس بحال ہوئی،ان باتوں کے بعد آپ سنبھل گئے،اتنے میں آپ کا چہرہ بلکل زرد سفید ہوا اسی لمحے ڈارک۔ اب مجھے بھی محسوس ہواکہ ہونٹ اور زبان خشک ہوئی ہیں۔اس دوران جسم کانپ رہاتھا کہ ایک دو گھونٹ پانی پی لیا۔اس کے بعد ایک دودن میں وزن میں کافی کمی واقع ہوئی۔اب موت کو مات دے چکا تھا۔تاہم اس دوران جو محسوس ہوا اور سوچنے لگا کہ آخر لوگ اس وباسے کیوں جلدی مرتے ہیں یہ سب کچھ میں جاننے کے قابل ہوگیا۔اور بنیادی بات یہ سمجھ آگئی کہ اس وباء سے جو موت واقع جلدی ہوجاتی ہے اس کا وجہ دم گھٹنا ہے۔ چونکہ پھیپھڑے بلغمی پانی سے بھر جاتے ہیں تو سانس لینے میں دشواری ہو تی ہے۔ اس کی وجہ سے گلے میں سوزش اورسوزش بعد کھانسی اتنی تیزی سے اور ون وے شروع ہو جاتی ہے کہ سانس لینے کا موقع ہیں نہیں مل پاتا۔ نتیجے میں موت واقع ہوجاتی ہے۔عموماَ بچے یا بوڑھے اس لئے مقابلہ نہیں کرسکتے کہ معصوم بچے بیٹھنے کے قابل نہیں ہوتے اور نہیں بلغم خارج کرنا جانتے ہیں،اسی سبب وہ فوراََ موت کا
نوالہ بن جاتے ہیں۔ان کے مقابلے میں معزور شخص میں بھی مسلسل کھانسنے کی قوت نہیں رہتی نہی وہ دن رات بیٹھنے کی طاقت رکھتے ہیں،لہذا لیٹنے سے کھانسی کی موج ہوجاتی ہے اور مریض آسانی سے موت کے کھائی میں گرجاتاہے۔ اس مرض کے لاحق ہونے بعد میرا ذاتی ماننا ہے کہ جو بھی مریض ہو اسے چوبیس گھنٹہ دیکھ بحال کی ضرورت ہوتی ہے جب بھی وہ کھانسناشروع کرے تو اسے سپورٹ کی اشد ضرورت ہوتی ہے اگر مریض لیٹا ہواہے تو فورا اسے مدد دیکرََ بٹھانا چاہئے اگر بیٹھا ہواہے تو اسکے کمر کو آہستہ آہستہ دبا کر اسکے سانس کو بحال کرنے میں مدد دینا چاہئے۔کسی سبب اسے اکیلے چھوڑاگیا تو وہ موت کے منہ میں آسانی سے پہنچ سکتاہے۔ کیوں کہ موت کیلئے پانچ سے دس سیکنڈ کافی ہیں۔ یہ احتیاطی تدابیر یا مدد اس مریض کو فائدہ پہنچا سکتاہے جو نوجوان یا ادھیڑ عمر ہیں،باقی بچے اور بزرگوں کیلئے یہ مدد شاید بیکار
ثابت ہوں کیوں کہ انکی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here