جی ہاں، بی ایل اے کے حریت پسندوں نے کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا

0
1798

تحریر: وویک سنہا
ترجمہ : ابراہیم بلوچ

بلوچستان کی آزادی کی تحریک کو پٹری سے اتارنے کی مایوس کن کوششوں میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر متعدد بے بنیاددعوے کرنے لگے ہیں۔ ان میں سے ایک حیربیار مری ہے جو بی ایل اے کے بارے میں جعلی دعوے کر رہا ہے۔

پیر، 29 جون تھا، جب کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ہونے والے حملے کے بارے میں پہلی بار خبر نشر ہوا تھا۔اس’بریکنگ نیوز’ نے تمام ٹیلی ویژن نیوز چینلز، پورٹلز اور نیوز ایجنسیوں میں فوری طور پر تہلکہ مچا دیا لیکن اپنے حریفوں سے آگے دوڑلگانے کے چکر میں دنیا بھر کے صحافیوں، خاص طور پر بھارت میں لوگوں نے ایک غلطی کی ، اس سے پہلے کہ کراچی حملوں کے مرتکب افراد کے بارے میں کوئی تصدیق ہو سکے کہ شہ سرخیوں نے چیخ و پکار شروع کر دی ،کراچی اسٹاک ایکسچینج پر دہشت گردوںنے حملہ کردیا ہے۔اس کے بعد اسی طرح کے ٹویٹس، میمیز اور فیس بک پوسٹس بھی دکھائی دیے جن سب میں یہ کہا گیا کہ دہشتگرد پاکستان میں اپنے آقاو¿ں کے خلاف ہو گئے ہیں۔

چند گھنٹوں بعد یہ بات سامنے آئی کہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے کراچی اسٹاک ایکسچینج میں بلوچستان میں آئے روز ہونےوالی ہلاکتوں اور مقبوضہ بلوچستان بھر میں گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوے یہ حملہ کیا، اس حملے سے بی ایل اے چاہتاتھا کہ راولپنڈی میں بیٹھے بہرے پاکستانی فوج کے جرنیل بلوچستان کی حالت زار کو سنیں اور دنیا کو مقبوضہ بلوچستان بھر میں جاری پاکستانی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بتائیں۔تاہم بی ایل اے کی جانب سے حملوں کی ذمہ داری قبو ل کرنے کے بعد بھی کراچی اسٹاک ایکسچینج میں حملہ کرنے والوںکے بارے میں سرخیاں جاری رہیں اور چاروںطرف ٹویٹس جاری رہیں۔

دراصل ‘کراچی پر حملہ کرنے والے دہشت گرد’ پاکستان کا وہ بیانیہ تھا جو گلوبل میڈیا کے خرید میں تیزی سے سامنے آیا، اس بیانیے کو آگے فروخت کیا جاسکتا تھا اگر بروقت میڈیا اور سوشل میڈیا میں BLA کے حملے کے بنیادی منشا اورپاکستانی قبضے کے خلاف بلوچستان کے آزادی کیلئے جدوجہد کا تجزیہ نہ کرتے۔

بلوچ عوام کی بڑی تعداد، بلوچ آزادی پسند اور انقلابیوں نے اپنی طرف سے اس کہانی میں مداخلت کی کہ کراچی حملہ پاکستانی اورچینی اسٹیبلشمنٹ پر ہوا اور یہ کہ حملہ آور انقلابی حریت پسند تھے جنہوں نے بلوچستان کی تحریک آزادی کے لئے اپنی جانیں قربا ن کر نے کے لئے انتہائی جرت مند قدم اٹھایا تھا۔

لیکن پھر بھی پاکستان کی پروپیگنڈا مشینری کافی مضبوط رہی اور اس نے اپنی ڈور کھینچی اور لندن میں بیٹھے لوگوں کا ایک گروہ کراچی اسٹاک ایکسچینج حملے کے خلاف کھل کر سامنے آیا۔ انہوں نے جعلی دعوے کئے کہ وہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو”اون” کرتے ہیں اور یہ کہ بی ایل اے اس حملے میں ملوث نہیں تھا۔ ان میں سے ایک حیربیار مری ہے۔

بدقسمتی سے حیربیارمری کے بیانات کی بنیاد پر سوال کرنے کے بجائے میڈیا کا ایک بڑا طبقہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر رہ گیا، اس کی کہانی کو خریدا اور براہ راست آئی ایس آئی کے بتائے ہوئے پروپیگنڈے کے جال میں پھنس گئے۔

دنیا کو معلوم ہونا چاہیے۔ بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد 27 مارچ 1948 سے جاری ہے جب پاکستان نے غیر قانونی طور پر ایک آزادقوم یعنی بلوچستان پر قبضہ کیا۔ بلوچ آزادی کی جدوجہد کے موجودہ مرحلے نے 2002 کے بعد سے رفتار حاصل کی۔ اوراب بی ایل اے کے کراچی اسٹاک ایکسچینج پر 29 جون کے حملے کے بعد کم از کم پوری دنیا میں بلوچستان کے مسئلے پر بات ہو رہی ہے۔

بی ایل اے کے علاوہ بلوچستان میں دیگر فرنٹ لائن انقلابی تنظیموں میں بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بلوچ ریپبلیکن آرمی(بی آر اے) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) شامل ہیں۔ ان مختلف مسلح انقلابی گروہوں نے اپنی کوششوں کی ہم آہنگی کےلئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم بلوچ راجی آجوئی سنگر (BRAS) تشکیل دیا ہے۔ براس نے حالیہ برسوں میں پاکستانی فوج پر کئی حملے کیے ہیں۔ یہ مختلف بلوچ انقلابی گروہوں کے اتحاد کی گواہی ہے۔

مجید بریگیڈ (خود کو قربان کرنے والے /فدائین) کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کرنے والے چار بلوچ انقلابی حریت پسندوں کا تعلق بی ایل اے سے تھا۔

بلوچ انقلابی فوج (بی ایل اے) کی مختصر تاریخ

بلوچ انقلابیوں کا کہنا ہے کہ بی ایل اے (بلوچ انقلابی فوج) 1996 میں ایک معروف بلوچ انقلابی رہنما نواب خیر بخش مری نے دیگر بلوچ انقلابیوں کے ہمراہ قائم کیا تھا۔ خیر بخش مری 1960 کی دہائی، 1970 اور 1980 کی دہائی کے دوران بہت معروف بلوچ قوم پرست تھے جنہوں نے پاکستان سے بلوچستان کی آزادی حاصل کرنے کے لئے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کئی قربانیاں دیں۔

جب بی ایل اے تشکیل دی گئی تو اس کی آپریشنل سرگرمیاں خیر بخش مری کے بیٹے بالاچ مری سنبھال رہے تھے جبکہ بی ایل اے کی بیرون ملک تعلقات عامہ کی سرگرمیاں خیر بخش مری کے بڑے بیٹے حیربےار مری نے سنبھال رکھی تھیں۔ یہ انتظام کچھ وقت کےلئے بالکل آسانی سے کام کرتا رہا۔ بعد ازاں جب پاک فوج کے خلاف کارروائیوں کے دوران بالاچ مری کو شہید کیا گیا تو پھرگراﺅنڈ پر بی ایل اے کی آپریشنل سرگرمیاں دیگر بلوچ رہنماﺅں نے سنبھال لیں جن میں اسلم بلوچ، حمید شاہین، امیر بخش لانگو،علی شیر کرد اور دیگر شامل تھے۔

نواب خیر بخش مری کے ساتھ ساتھ اسلم بلوچ اور دیگر انقلابیوں نے بی ایل اے کی سرگرمیوں کو منظم کیالیکن پھر اچانک بی ایل اے کے کئی کارکن امیر بخش لانگو، علی شیر کرد، غفار لانگو، حمید شاہین کو پاکستانی فوج نے شہید کردیا۔ کئی بلوچ ذرائع اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ ایسا شاید اس وجہ سے ہوا تھا کہ اس کی وجہ حیربیار مری ہے جو اب کراچی اسٹاک ایکسچینج حملے میں بی ایل اے کے ملوث ہونے کے خلاف بولنے لگا ہے۔

حیربیار مری کا پس منظر

یہ سب 2007 ءمیں شروع ہوا تھا جب پاکستان میں “دہشت گردی” کو ہوا دینے کے الزام میں حیربیار مری کو لندن میں گرفتار کیاگیا تھا۔ حیربیار مری پر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے اور بلوچستان کی تحریک آزادی کو بھڑکانے کے الزام عائدکیے گیے۔ اس وقت پاکستان میں ایک القاعدہ کے دہشت گرد راشد رﺅف کو بھی آئی ایس آئی نے گرفتار کیا تھا۔ راشد رو¿ف کاتعلق برمنگھم سے تھا اور وہ برطانیہ میں دہشت گردی سے متعلق الزامات میں برطانوی حکومت کو مطلوب تھے۔

پاکستان اور برطانیہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلہ کے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے کہ پاکستان راشد رو¿ف کو برطانیہ کے حوالے کرے گا اور اس کے بدلے میں حیربیار مری کو تحویل میں لے گا۔

پھر واقعات نے ایک غیر متوقع موڑ لے لیا، پاکستان نے اچانک اعلان کیا کہ راشد رو¿ف ان کی حراست سے فرار ہو گئے ہیںاور برطانیہ اور پاکستان کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ واپس ہوا ہے۔ چند ماہ بعد پاکستان نے اعلان کیا کہ راشد رو¿ف کو ڈرون حملے میں مارا گیا۔ حیربیار مری جلد ہی لندن میں ایک آزاد شخصیت کی حیثیت مل گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حیربیار مری نے بطور”پاکستانی شہری” اس حیثیت کے بعد لندن میں واپس قیام کیا اور اس طرح “بلوچ کارکن” کے طور پر اپنی دوسری اننگز کا آغاز کیا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے حیربیار مری کی حوالگی کے لئے برطانیہ کی حکومت پر دباﺅ ڈالنا چھوڑ دیا اور اس نے جلد ہی ایک کمپنی بولان لمیٹڈ تشکیل دے دی جو انگلینڈ اور ولز میں رجسٹر ہوئی بولان لمیٹڈ کے دو ڈائریکٹرز حیربیار مری اور علی سید گیلانی ہیں جن میں سے دونوں کمپنی کے رجسٹریشن دستاویزات کے مطابق پاکستانی شہری ہیں۔

حیربیار مری اب بھی پاکستانی پاسپورٹ رکھتا ہے جس کی پاکستان کی جانب سے فوری طور پر تجدید کی جاتی ہے اور اب لندن کے مختلف مقامات پر تین مختلف گھر ہیں۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ وہی حیربیار مری جو پاکستان کیلئے مطلوب تھا اور بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کو ہوا دے ریا تھا۔اب فوری طور پر اپنے پاکستانی پاسپورٹ کی تجدید کروا سکتا ہے۔ اور پھر وہ خود کو بلوچ انقلابی کہتارہتا ہے!یہ آئی ایس آئی کی طرف سے ایک تیز رفتار اقدام تھا۔ معاہدے کے مطابق حیربیار مری کو کسی بھی طرح سے بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے) کی ملکیت پر قبضہ کرنا تھا اور اس کے بدلے میں وہ پاکستانی پاسپورٹ پر برطانیہ میں واپس رہ سکتا ہے اور وقتاََتبدیل کرسکتا ہے۔

اس کے بعد ہی یہ بی ایل اے کئی اندرونی جھگڑوں میں پھنس گیا کیونکہ حیربیارمری نے بی ایل اے کے کام کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کیں۔ 2012 ء میں حیربیارکی قیادت میں بننے والے دھڑے کی جانب سے بلوچ انقلابی تحریک کو اور خاص طور پر بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی متفقہ بدنام کرنے کوششیں کی گئیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے خلاف مہمات چلائی گئیں جو اس وقت بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کو ہموار کرنے اور آزادی کی جدوجہد کی تحریک کو بلوچستان کے ہرکونے تک پھیلانے کے لئے کام کر رہے تھے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی مقبولیت بلوچ عوام میں بڑھ رہی تھی اور وہ پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کے لئے نہ برداشت کردہ انقلابی بن چکے تھے۔ اس کے باوجود آئرن مین، ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے جدوجہد آزادی کی رفتار کو برقرار رکھا اور عام لوگوں میں بلوچستان کی آزادی کی تحریک کی رسی کو جکھڑے رکھا۔

بہت جلد ہی آئی ایس آئی کی حیربیار مری کے ساتھ خفیہ ڈیل بے نقاب ہوگئی اور مرحوم نواب خیر بخش مری نے اپنے بڑے بیٹے حیربیار مری کے ساتھ تمام تعلقات توڑ دیئے اور کہا کہ وہ اب کوئی انقلابی نہیں اور حقیقت سامنے آگیا اور اسلم بلوچ نے دوسرے بلوچ انقلابیوں کے ساتھ مل کر حیربیار مری کے چلائے جانے والے مشکوک پروپیگنڈے کو مزید بے نقاب کردیا۔

سنہ 2017 ء میں اسلم بلوچ نے بی ایل اے کی کمانڈ سنبھال لی ۔اس وقت ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ اور دیگر کئی ساتھیوں کے ساتھ ملکر دیگر بلوچ انقلابی گروہوں کے ساتھ تعلقات جوڑ دئے اور بلوچستان کی آزادی کے لئے مشترکہ طور پر لڑنے کے لئے بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ ری پبلکن آرمی اور بلوچ ری پبلکن گارڈ کے مشترکہ انقلابی فرنٹ براس (بلوچ راجی آجوئی سنگر) کو ایک ساتھ ملا کر ایک اتحاد تشکیل دیا۔

ایک سال بعد 2018 ءمیں اسلم بلوچ کو پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان دھڑے نے خود کش حملے میں شہید کیا جو کراچی میں چینی قونصل خانے پر بی ایل اے کے حملے کے فوراً بعد کیا گیا۔ اس کے بعد بی ایل اے کی کمان ایک نوجوان رہنما بشیر زیب کو منتقل ہوگئی جو ایک دور میں بی ایس او (بلوچستان ا سٹوڈنٹ کی تنظیم) میں بطور طالب علم سرگرم کارکن تھے جن کو ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ سے اپنے دور میں تربیت حاصل رہی۔ بشیر زیب بہت اچھا پڑھا لکھا اور بی ایل اے کا نوجوان لیڈر ہے۔ بی ایل اے کے رہنماکے طور پر، بشیر زیب نے پاکستانی فوج کو ان کی آسائشوں اور سہولتوں پر بار بار حملے کرکے ایک مشکل میں ڈال دیا ہے۔

بشیر زیب کی قیادت میں بی ایل اے کے حریت پسندوں نے 29 جون کو کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کامیابی سے کیا ہے۔لیکن ان بناوٹی لوگوں نے جنہوں نے پہلے بی ایل اے اور بلوچ انقلاب کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تھی وہ ایک بار پھر سرگرم ہوگئے ہیں۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ میڈیا نے بی ایل اے کے رہنماو¿ں کے طور پر ایسے لوگوں کو حوالہ دینا شروع کر دیا ہے۔

کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ

29 جون کے حملے میں کامیابی کے بعد ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ بلوچ نوجوان قابض دشمن کے استعماری تکبر کوکچلنے کے لئے خود کو قربان کررہے ہیں نہ کہ شہرت اور جلال کے لئے۔ “کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ پاکستان اور چین کو بلوچستان سے نکلنے کا انتباہ تھا۔

پاکستان نے چین کو سستا رہن شدہ بلوچ زمین دی ہے اور بلوچستان میں چین کی موجودگی نہ صرف بلوچ قومی بقا کے لئے خطرہ بن چکی ہے بلکہ اس سے پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ دنیا آج بھی چین کے ارادوں سے بے خبر ہے اور یہ کہ بلوچ عوام ہی اس جدید سامراجی عفریت کا مقابلہ کرنے والے ہیں۔

گوادر میں چینی اڈے پر حملے کے بعد کراچی میں چینی رقم کمانے والوں کے اڈے پر حملہ اس کے سٹریٹجک اثاثوں پر حملوں کاتسلسل ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر نے ایک پختہ عزم کے ساتھ وضاحت کی، اس کی قیمت خواہ کچھ بھی ہو، بلوچ اسے جاری رکھیں گے۔

کراچی اسٹاک ایکسچینج پر بی ایل اے کا حملہ پاکستان کی معیشت پر ہوا اور بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کو بھی دنیا کے کونے کونے تک لے گیا ہے۔ دنیا بھر کے لوگ اب اس بات پر بحث کررہے ہیں کہ عام بلوچ عوام کے خلاف مقبوضہ بلوچستان بھرمیں پاکستانی فوج کس طرح بھاری توپ و تفنگ، جدید ترین مشین گنوں اور گن شپس ہیلی کاپٹر سے تباہی مچا رہی ہے۔

“شہید بھگت سنگھ نے 8 اپریل 1931 کو مرکزی قانون ساز اسمبلی پر بھارت کی جدوجہد آزادی کے دوران بم دھماکے کے الزام میں مقدمے کی سماعت میں کہا کہ ” بہروں کو سنانا ہے تو آواز کو بہت بلند کرنا ہوگا”

کراچی حملے میں شہید ہونے والے بی ایل اے کے حریت پسندوں سلمان حمل، تسلیم بلوچ، شہزاد بلوچ اور سراج کونگر نے اسی طرح کے الفاظ کہے تھے۔ “ہم اقوام متحدہ، یورپی یونین یا امریکی محکمہ خارجہ جیسے انسانی حقوق کے اداروں پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آپ بلوچ نسل کشی کا نوٹس لینے اور پاکستان پر دباﺅ ڈالنے میں ناکام رہے ہیں کہ اس نسل کشی کو روکا جائے۔ آپ بلوچ قوم کی آواز سننے میں ناکام رہے ہیں لہذا ہمیں اس انتہا تک جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا ہے۔

دنیا کو یہ بتانا ضروری ہے کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کرنے والے بی ایل اے کے آزادی کے جنگجوو¿ں نے کراچی کے معصوم لوگوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ انہوں نے پاکستانی اور چینی شہریوں کی غیر اخلاقی رقم قرض دینے والے تاجروں کو مارنے کاانتخاب کیا جنہوں نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو اپنے ڈین (چوروں کا اڈا) میں تبدیل کردیا ہے۔ جس طرح بھگت سنگھ اورباتوکیشور دت نے بھارت میں دنیا کی توجہ برطانوی استعمار کی طرف مبذول کرانے کے لئے بم پھینکے، بی ایل اے کے حریت پسندوں نے کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا ہے تاکہ دنیا مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان کے مظالم کا نوٹس لے۔


٭٭٭

نوٹ: یہ تحریر ہندوستان کے نشریاتی ادارے “نیوز انٹر وینشن”کے ایڈیٹرانچیف اور ناول نگار”ووک سنہا” کا ہے اور یہ ” نیوز اینٹروینشن ” میں بھی انگریز ی میں شائع ہوا ہے لیکن سنگر کے قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر اسے اردو قالب میں ڈال کر پیش کیا جارہا ہے ۔ ادارہ سنگر

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here