پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارلحکومت کراچی میں آج بروزاتوار 20 اکتوبر کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بلوچ شہریوں کی جبری گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات بالخصوص بلوچ طلباء کو نشانہ بنانے کے ردعمل میں “خاموشی کو توڑنا: جبری گمشدگیوں کے خلاف کھڑے ہونا” کے عنوان کے تحت احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
مرد وخواتین مظاہرین پر کراچی پولیس نے لاٹھی چارج کرکے انہیں شدید کا نشانہ بنایا اورمتعدد افراد کو گرفتار کرلیا گیاہے جن میں جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر لالہ وہاب بلوچ کے حوالے سے کہا جارہا ہے اسے لاپتہ کرلیا گیا ہے ۔
اتوار کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کرنا تھا تاہم پولیس نے مظاہرین کو زینب مارکیٹ کے قریب روک رکھا جبکہ پریس کلب کے آنے جانے والے تمام راستوں کو بلاک کرکے رکاوٹیں کھڑی کردی۔
جب بی وائی سی کے مظاہرین پریس کلب کے سامنے آنے کی کوشش کرنے لگے تو پولیس نے ان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردی۔
پولیس نے لاٹھی چارج کرکے متعدد افراد کو گرفتار کرلیا۔ گرفتاری کے بعد مظاہرین کو پولیس تھانے منتقل کردیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے ہمارے پرامن مظاہرین پر پولیس گردی کا مظاہرہ کیا گیا اور متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ پرامن احتجاج کرنا ان کا آئینی اور قانونی حق ہے لیکن حکومتی اداروں کی جانب سے جمہوری عمل کی خلاف ورزی کی گئی۔ ترجمان نے مطالبہ کیا کہ پرامن مظاہرین کو رہا کیا جائے بصورت دیگر احتجاج کا دائرہ وسیع کیا جائیگا جس کی ذمہ داری حکومتی اداروں پر عائد ہوگی۔
دوسری جانب بی وائی سی رہنما اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سیکر ٹری جنرل سمی دین بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ بی وائی سی کے سینئر رہنما لالا وہاب بلوچ کو درجنوں ساتھیوں کے ساتھ پولیس نے تشدد کرکے گرفتار کرنے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس نے حسب روایت بلوچ خواتین کوایک مرتبہ پھر بے دردی سے تشدد کیا ، ان پر لاٹھی جارج کیا ۔
سمی بلوچ نے کہا کہ ہم پر مرد پولیس اہلکار گالیاں دیتے گندی غلیظ زبان استعمال کرتے رہے۔
انہوںنے مزید کہا کہ بلوچ دشمنی میں تمام سیاسی وفاقی جماعتیں اپنے سارے ریاستی ستون کے ساتھ کھل کر سامنے آرہی ہیں۔
سمی بلوچ نے مزید کہا کہ ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم ریاستی بربریت پر خاموشی اختیار نہیں کرتے اپنی جبری گمشدہ پیاروں کی بازیابی کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوتے ۔بلاول بٹھو سیاسی رہنما سے زیادہ بلوچوں کے لیے آمر سے بھی بدتر کردار ادا کررہے ہیں۔