کوئٹہ : جبری گمشدگیوں کیخلاف وی بی ایم پی کا احتجاجی کیمپ جاری

0
36

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں وی بی ایم پی کی جانب سے بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5516 دن ہو گئے ۔

لاپتہ ظہیر بلوچ کی فیملی احتجاجی کیمپ میں موجود رہاجبکہ ماما عبدالغفار قمبرانی، بی ایس او پجار کے نعیم بلوچ اور دیگر نے کیمپ میںآکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی ۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہو کر کہا کہ انسانی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں ظلم و جبر کے خلاف اٹھی حق کی آواز کو قتل و غارت ظلم و جبر سے نہ دبایا جا سکا ہے اور نہ ہی ختم کیا جا سکا ہمیشہ قابض و ظالم نے مظلوم بلوچوں کے خلاف تشدد جبر کے ساتھ انہیں غلام رکھنے کے لیے اپنے تمام تر حربے اور وسائل کا استعمال کیا ہے یہی صورت حال روز اول سے بلوچ کے ساتھ بھی چلا آرہا ہے اس خطے میں 27 مارچ 1948 کو پاکستان نے اپنی لاؤ لشکر کے ساتھ جبری قبضہ کے بعد سے اج تک اس غلامی کو تقویت دینے کے لیے فوجی اپریشن بلوچ نسل کشی مسخ لاشیں نیز تمام حربے استعمال کیئے اور کر رہے ہیں مگر ایک اہم سوال کہ سب سے بڑا حربہ جو کسی قوم کی غلامی کا سبب بنتا ہے وہ کیا ہے تشدد ظلم ہم اگر اپنی تاریخ اور دیگر غلام قوموں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو سب میں ایک شے صاف نظر آتی ہے ۔

اور وہ رد انقلابی قوتیں ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پرامن جدوجہد کے سامنے رکاوٹ ہوں وہ رد انقلابی قوت کہلاتی ہیں 1948 قبضہ کے فوری بعد بلوچ نے جدوجہد شروع کی جو 2001 میں آکے ایک تناور درخت کی صورت میں رونما ہوا اور آج بلوچ جہد عام دنیا کے سامنے سورج کی روشنی کے طور عیاں ہے 1948 سے 2001 تک بلوچ پرامن جدوجہد کے سامنے رکاوٹ طاقتیں کون تھیں جو بلوچ غلامی کا سبب بنیں جکی وجہ سے غلامی کو تقویت ملی قابض اور حاکم وقت نے اب تک ہمیں غلام رکھا ہے سب سے خطرناک دشمن جو آپکے قرار واقعی دشمن سے ہزاروں بلکہ لاکھوں گناہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے وہ ہے اپنی صفوں اور بلوچیت کے لبادے میں ملبوس خود کو بلوچ کسنے والے ذرا تاریخ کے اور ہق کا جائزہ لیں تو سیاسی پلیٹ فارم چاہیے وہ پرامن جدوجہد بہت اہم اور اثر انداز کردار ادا کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب شہدا کے لہو گمشدہ بلوچ فرزندوں کی قربانیوں کو اپنی کرسی کے لیے استعمال کررہے احتساب اب عوام کا فرض بن گیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here